امام مسلم اور امام نسائی کا تقابل:
حافظ ابن مندہ شروط الائمہ میں کہتے ہیں: جن چار علماء نے صحیح احادیث کی تخریج کی اور صحیح اور ثابت شدہ احادیث کو معلول سے اور خطاکو صواب سے الگ کیا، چارہیں: بخاری، مسلم، ابوداوداور ابوعبدالرحمن نسائی (شروط الائمہ، سیر أعلام النبلاء 14/135)
علامہ ذہبی فرماتے ہیں: هو أحذق بالحديث وعلله ورجاله من مسلم والترمذي وأبي داود وهو جار في مضمار البخاري وأبي زرعة. (السیر)، (نسائی: حدیث، علل اور رجال حدیث میں مسلم، ابوداود اور ترمذی سے زیادہ حاذق وماہر ہیں، بلکہ وہ بخاری اور ابوزرعہ کے صف کے آدمی ہیں) (سیر أعلام النبلاء 14/133)۔
علم جرح وتعدیل اور امام نسائی
امام ذہبی نے اپنے رسالہ ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل میں امام نسائی کو ناقدین حدیث کے چھٹے طبقے میں شمارکیاہے (صفحہ 185، أربع رسائل فی علوم الحدیث)۔
حافظ سخاوی نے المتكلمون في الرجالمیں آپ کو چودہویں طبقے میں شمارکیاہے، جو (301ھ) سے (322ھ) کے درمیان وفات پانے والے ناقدین حدیث ہیں (صفحہ 101، أربع رسائل فی علوم الحدیث)
امام نسائی کا شمار فی الجملہ متشدد ناقدین حدیث میں ہوتاہے، حتی کہ امام نسائی نے بعض ایسے رواۃ اور بعض ایسی احادیث پر تنقید کی ہے جو صحیحین یا کسی ایک کتاب میں موجود ہیں، گرچہ صحیحین کے جملہ ناقدین کے مقابلے میں محقق علماء کے نزدیک شیخین کا مذہب زیادہ حق وصواب پر مبنی ہے، لیکن اس سے فی الجملہ نسائی کے منہج کا پتہ چلتاہے، اوریہیں سے نسائی پر جرح میں متشدد ہونے کی بات کہی جاتی ہے (تہذیب التہذیب 2/147)، امام نسائی کا منہج اپنے پیش رو اوائل ناقدین حدیث کے بارے میں درج ذیل قول سے واضح ہے:
علم نبوی کے من جانب اللہ تین امین ہیں: شعبۃ بن الحجاج (ت: 160ھ)، یحیی بن سعید القطان (ت: 198ھ) اور مالک بن انس (ت: 179ھ)، ثوری (سفیان بن سعید، ت: 161ھ) امام ہیں، لیکن وہ ضعفاء سے روایت کرتے ہیں، میرے نزدیک تابعین کے بعد مالک بن انس سے زیادہ کوئی معزز نہیں ہے، او رنہ حدیث میں ان سے زیادہ کوئی امین ہے، پھر حدیث میں شعبہ کا مرتبہ ہے، اس کے بعد یحیی بن سعید القطان کا، ان تینوں سے زیادہ حدیث میں کوئی اورامین نہیں ہے، اور نہ ان سے کم ضعفاء سے روایت کرنے میں کوئی اور ہے (الضعفاء والمتروکین للنسائی 123، الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الأئمۃالفقہاء لابن عبدالبر 31)۔
طبقہ تابعین کے بعد دوسری صدی کے نصف اول کے ان تین ممتاز ائمہ دین اور ناقدین حدیث کے تذکرے میں خصوصیت کے ساتھ ان کے ضعفاء سے کم سے کم روایت کرنے کا تذکرہ ہے، اوریہ حدیث رسول میں امانت ودیانت کی ممتاز علامت ہے، امام نسائی کا منہج ورع واضح ہے، اسی بناپرآپ نے ابن لہیعہ کی روایات سے پرہیز کیا اور اسی وجہ سے بعض ایسے رواۃ سے بھی روایت نہ کی جو صحیحین کے رواۃ ہیں، لیکن بایں ہمہ امام نسائی کا مذہب یہ رہا ہے کہ جب تک رواۃ کے ضعف پر اجماع نہ ہوجائے دلائل کی بناپر کسی متکلم فیہ راوی سے روایت کادروازہ کھلا ہے، لیکن کسی شدید ضعف اور خطا والے راوی کی روایت سے امام نسائی نے پرہیز کیاہے، یہ بات بھی واضح رہے کہ نسائی کے یہاں راوی میں عدالت اور ضبط کی صفات پائے جانے کے بعد اگر اس میں کسی نوع کی بدعت پائی جاتی ہے تواس سے حدیث کی تخریج میں اجتناب نہیں کیا، اور اگر کبھی کوئی زائد فائدہ نظر آیا یا باب میں اس کے علاوہ دوسری حدیث نہ ملی تو آپ نے حدیث میں سبب تخریج بیان کرنے کے بعد وہ حدیث اپنی کتاب میں داخل کرلی، چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کی روایت کے بعد کہتے ہیں: سعید بن سلمہ ضعیف شیخ ہیں، ہم نے حدیث میں زیادتی کی وجہ سے ان کی حدیث کی تخریج کی ہے، اور اس سے پہلے سعید بن سلمہ کے علاوہ کے طریق سے بھی روایت کی (سنن صغری 8/258)۔
ایسے ہی منسک حج سے متعلق جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بعض زیادات کی وجہ سے عبداللہ بن عثمان بن خثیم کے طریق سے حدیث روایت کے بعد کہتے ہیں: ابن خثیم ''لیس بالقوی فی الحدیث...''۔
یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام نسائی ضعیف یامتروک رواۃسے روایت نہیں کرتے اور ضعف کی موجودگی کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
علامہ محمد اسماعیل امیر یمانی کہتے ہیں: یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ائمہ حدیث نے سنن کبریٰ کے بارے میں دوبات کہی ہے: پہلی یہ کہ نسائی کی اس میں شرط شیخین کی شرط سے زیادہ سخت ہے، دوسری یہ کہ نسائی کی شرط اس میں ابوداود کی شرط ہے، یعنی جن رواۃ کے ضعف پر اجماع نہیں ہوا ہے ان کی احادیث کی تخریج (توضیح الأفکار)۔
حق یہ ہے کہ ان تمام تفصیلات کے باوجود نسائی کا درجہ صحیحین کے بعد کا ہے، اور نسائی اور ابوداود کی شرط کے مطابق متفق علیہ ضعیف راوی سے اجتناب اور مختلف فیہ راوی پر تحقیقی نظر ڈال کر قابل توثیق راوی کی روایت کرنا نیزضعیف رواۃ اور معلول احادیث کی نشاندہی۔
بعض رواۃ پر سخت جرح کی بناپر متاخر علماء نے امام نسائی پر تنقیدکی ہے، اس سلسلے میں بعض مثالیں درج ذیل ہیں:
1- احمد بن صالح المصری مشہور ثقہ راوی ہیں، لیکن امام نسائی کی رائے ان کے بارے میں بری تھی، ان کے بارے میں ایک مرتبہ کہا: یہ نہ تو ثقہ ہیں، اور نہ مامون، مجھے معاویہ بن صالح نے بتایا کہ میں نے یحیی بن معین سے احمد بن صالح کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ کذاب ہے، فلسفہ جھاڑتاہے، مصر کی جامع مسجدمیں میں نے اس کو متکبرانہ چال چلتے ہوئے دیکھا ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: نسائی نے احمد بن صالح کی تضعیف یحیی بن معین کی اس حکایت کی بناپرکی، اور یہ ان کا وہم ہے، جس کی بناپر انہوں نے احمد بن صالح کے بارے میں غلط رائے قائم کرلی، ہم سب سے پہلے اس بدظنی کے سبب کاذکرکریں گے پھرابن معین سے اس حکایت کے نقل کرنے میں جو وہم اور غلطی ہوئی ہے، اس کا سبب بتائیں گے۔
امام عقیلی کہتے ہیں: احمد بن صالح جب تک آدمی کے بارے میں پوچھ نہ لیتے اسے احادیث نہ بیان کرتے، نسائی جب مصرآئے تو احمد بن صالح کے پاس اہل حدیث کی ایک ایسی جماعت کے ساتھ آئے جن سے احمد بن صالح راضی نہیں تھے، تو روایت حدیث سے انکارکردیا، اس پر نسائی نے احمد بن صالح کی ان احادیث کو جمع کیا جس میں ان سے وہم ہوگیا تھا اور ان کے خلاف بولنے لگے، لیکن اس سے احمد بن صالح کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کہ وہ امام اور ثقہ ہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں: نسائی معرفت حدیث کے مشہور حافظ احمد بن صالح کی بعض احادیث پر نکیر کرتے تھے، پھر ابن عدی نے نسائی کی اعتراض والی احادیث کا تذکرہ کرکے ان کے جوابات دیے، جن میں سے صحیح بخاری کی کوئی حدیث نہیں ہے...۔
ابن حبان کہتے ہیں: نسائی نے یحیی بن معین کا جو قول احمد بن صالح مصری کے بارے میں نقل کیا ہے وہ ان کا وہم ہے، اس لیے کہ جس احمد بن صالح کے بارے میں ابن معین نے جرح کی تھی وہ احمد بن صالح ابن الطبری مصری نہ تھے، بلکہ وہ ایک دوسرا آدمی تھا جس کو اشمومی کہا جاتا تھا او رجسے حدیث گھڑنے میں شہرت تھی، ابن الطبری (احمد بن صالح مصری) تو ضبط واتقان میں ابن معین کے قریب ہیں۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: یہ انتہائی درجہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بخاری نے ذکر کیا ہے کہ یحیی بن معین نے احمد بن صالح ابن الطبری المصری کی توثیق کی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ نسائی احمد بن صالح کی تضعیف میں منفرد ہیں، اور ان کا قول غیر مقبول ہے، حتی کہ خلیلی کہتے ہیں: حفاظ حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نسائی کی ابن صالح پر جر ح میں تحامل اور زیادتی ہے، خلیلی کی بات صحیح ہے (تہذہب التہذیب 1/28، مقدمۃ فتح الباری 386، مقدمۃ ابن الصلاح: النوع 61: معرفۃ الثقات والضعفاء: 390)۔