سنن صغریٰ میں کوئی حدیث موضوع نہیں ہے، اس کی صرف ایک حدیث کو ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں داخل کیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے، سنن النسائی میں یہ حدیث کتاب الأشربۃ، باب: ذكر الآثام المتولدة عن شرب الخمر... (حدیث نمبر: 5672)میں آئی ہے، جو بسند یزید بن ابی زیاد عن مجاہد عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما مرفوعاً مروی ہے، جس کا متن یہ ہے: " مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ؛ فَجَعَلَهَا فِي بَطْنِهِ لَمْ يَقْبَلْ اللَّهُ مِنْهُ صَلاةً سَبْعًا إِنْ مَاتَ فِيهَا " وَقَالَ ابْنُ آدَمَ: فِيهِنَّ مَاتَ كَافِرًا فَإِنْ أَذْهَبَتْ عَقْلَهُ عَنْ شَيْئٍ مِنْ الْفَرَائِضِ، وَقَالَ ابْنُ آدَمَ: الْقُرْآنِ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِنْ مَاتَ فِيهَا، وَقَالَ ابْنُ آدَمَ فِيهِنَّ مَاتَ كَافِرًا۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: '' جس نے شرا ب پی اور پیٹ میں اسے اتارلی، اللہ اس کی سا ت دن کی صلاۃ قبول نہیں کر ے گا، اگر وہ اس دوران میں مرگیا، تو وہ کفر کی حا لت میں مرے گا، اور اگر اس کی عقل چلی گئی اور کو ئی فر ض چھوٹ گیا (ابن آدم نے کہا: قر آن چھوٹ گیا)، تو اس کی چا لیس دن کی صلاۃ قبول نہیں ہو گی اور اگروہ اس دوران میں مر گیا، تو کفر کی حا لت میں مرے گا۔
اس حدیث کی علت ابن الجوزی نے یزید بن ابی زیاد کوبتایا ہے، اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، علی بن المدینی اور یحییٰ بن معین یزید کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی حدیث قابل حجت نہیں ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: اسے پھینک دو، اورخود نسائی کہتے ہیں کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے، حافظ ذہبی سیر أعلام النبلاء میں اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث شبہ موضوع ہے، اگرشعبہ کو علم ہوجاتاکہ یزید نے یہ باطل احادیث روایت کی ہیں، توان سے ایک لفظ بھی نہ روایت کرتے (6/132)، واضح رہے کہ امام نسائی نے اس مرفوع حدیث سے پہلے اس معنی کا درج ذیل ایک اثر عبداللہ بن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، جو صحیح ہے: عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَلَمْ يَنْتَشِ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ مَا دَامَ فِي جَوْفِهِ أَوْ عُرُوقِهِ مِنْهَا شَيْئٌ، وَإِنْ مَاتَ مَاتَ كَافِرًا، وَإِنْ انْتَشَى لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَإِنْ مَاتَ فِيهَا مَاتَ كَافِرًا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس نے شرا ب پی، (گرچہ) اسے نشہ نہیں ہو ا، لیکن جب تک اس کا ایک قطرہ بھی اس کے پیٹ یا اس کی رگوں میں با قی رہے گااس کی کو ئی صلاۃ قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ مر گیا تو کا فر کی موت مرے گا، اور اگر اسے نشہ ہو گیا تو اس کی صلاۃ چالیس دن تک قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ کافر کی موت مرے گا (حدیث نمبر: 5671)۔
امام نسائی اس کے بعد مرفوع حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے فرماتے ہیں: خَالَفَهُ يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ سابقہ روایت میں یزید بن ابی زیاد نے فضیل سے اختلاف کیاہے، یعنی امام نسائی نے یہاں پر مرفوع حدیث کے ضعف کی علت کو بیان کردیا ہے، اور سند کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث ضعیف ہے، اور اوپر مذکور موقوف اثر صحیح ہے، یہ بات بھی واضح رہے کہ ابن الجوزی نے یزید بن ابی زیاد پر جرح کا تذکرہ کیا، جب کہ بخاری نے یزید بن ابی زیاد سے تعلیقاً اور مسلم نے دوسرے راوی کے ساتھ ان سے روایت کی ہے، اور شعبہ جیسے امام نقد نے بھی ان سے روایت کی ہے، ذہبی نے شعبہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یزید آثار یعنی اقوال صحابہ کو مرفوع روایت کرنے والے تھے، احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یزید حافظ نہیں ہیں، اور ابوزرعہ کہتے ہیں کہ لین یعنی کمزور ہیں، اور ابوحاتم رازی کہتے ہیں کہ قوی نہیں ہے، اور ابوداود کہتے ہیں کہ میرے علم میں یہ نہیں کہ کسی نے ان کومتروک قرار دیاہو، نیز ملاحظہ ہو: فتح المغیث 1/ 100، 101، وتوجیہ النظر 153)وغیرہ۔