سنن نسائی میں جو چیزیں ممتاز اور نمایاں طور پر نظر آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1- امام نسائی نے سند اور متن پر محدثانہ نقطہ نظر سے اپنی رائے کی وضاحت کے ساتھ ساتھ بہت سارے رواۃ پر جرح وتعدیل کا کام کیا، اور احادیث کی صحت اور ضعف کی نشان دہی کی، ساتھ ہی فقہی نقطہ نظر سے تبویب کے ذریعہ فقہ احادیث پر توجہ صرف کی، جس سے علوم حدیث میں مہارت کے ساتھ ساتھ فقہ میں آپ کی امامت اور احادیث سے فقہی مسائل کے استنباط کی قوت کا علم ہوتا ہے، اور اس باب میں وہ اپنے شیخ امام بخاری کے انداز میں تراجم ابواب کا ذکر کرتے ہیں، اسی وجہ سے ائمہ حدیث آپ کو ممتاز فقہاء میں بھی شمارکرتے ہیں چنانچہ امام دار قطنی، امام نسائی کو شیوخ مصر کا سب سے بڑا فقیہ مانتے ہیں، اورامام حاکم کہتے ہیں کہ فقہ حدیث میں نسائی کا کلام بہت زیادہ ہے، جس کا یہاں تذکرہ ناممکن ہے۔
مزیدکہتے ہیں: جس شخص نے ان کی کتاب پر نظر ڈالی ان کے حسن کلام سے وہ حیرت میں پڑ گیا (معرفۃ علوم الحدیث: 82)۔ سنن صغریٰ میں فقہی ترتیب کے ساتھ اختصار بھی مطلوب تھااس لیے امام نسائی نے تراجم ابواب پر کافی زور دیا۔
2- حدیث اور فقہ کی فنی باریکیوں کی جامع، صحت، حسن ترتیب اور عمدگی میں صحیحین سے مشابہت رکھنے والی کتاب: امام نسائی نے صحت حدیث اور کثرت طرق کے ساتھ تبویب اور تفقہ میں امام بخاری کا انداز اختیار کیا، جمع طرق اور متون میں اگر باب کی حدیثوں کو اکٹھاکردیا جائے تو سنن نسائی کی صحیح مسلم کے طرز تالیف سے مشابہت ہوجاتی ہے، دونوں کتابوں میں بکثرت اختلاف طرق وروایت کا ذکر ہے، جس میں ترجیح کے پہلو صراحۃ اور عملاً نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سنن نسائی میں شاذ ونادر ہی ایسی احادیث ہوں گی جن کے بارے میں امام نسائی کی رائے نہ موجود ہو۔
چنانچہ ابن رشید کا قول پہلے گزر چکا ہے کہ سنن میں یہ تصنیف ترتیب کے لحاظ سے سب سے بہتر ین اور عمدہ کتاب ہے، اور بخاری اور مسلم کے طریقے اورمنہج کی جامع ہے، ساتھ ہی علل حدیث کے شرح وبیان میں اس کا بڑا حصہ ہے (النکت لابن حجر 1/484)۔
مغاربہ نے اسی بناپرصحیح مسلم کو صحیح بخاری پر یا سنن نسائی کوبقیہ کتابوں پر ترجیح دی ہے، سنن نسائی صحیح اسانید اور تکرار اسانید ومتون میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کو صحیح اسانید اور صحیح متون کے جمع وترتیب میں امتیاز حاصل ہے، حدیث میں موجود علت کے بیان کے لیے شواہدومتابعات کو بکثرت ذکرکیا تاکہ راجح اور مرجوح کے درمیان امتیاز قائم ہوجائے، اسی وجہ سے سنن اربعہ میں سنن نسائی کی احادیث کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
امام بخاری ایک حدیث کی تخریج مختلف طرق سے مختلف ابواب میں متعدد مسائل کو ثابت کرنے کے لیے کرتے ہیں، امام نسائی بھی ایک حدیث متعدد طرق اور متن کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں چنانچہ حدیث: إنما الأعمال بالنيات کی تخریج آپ نے (16) جگہ کی ہے، جب کہ صحیح بخاری میں اس کی تخریج (6) جگہوں پر ہے۔
احادیث کے طرق کی خوب وضاحت کرتے ہیں، اور اختلاف الفاظ کو ملحوظ رکھتے ہیں، جیسا کہ امام مسلم کا انداز ہے۔
3- امام نسائی نے طرق احادیث کے ذکر اور اسانید اور متون کے اختلافات کے شرح وبیان کا کام بڑی کثرت سے کیا ہے، اور محدثین کے عام قاعدہ کے مطابق حفظ میں ممتاز راوی کی روایت یا اکثریت کی روایت کی ترجیح کا منہج اختیار کیا ہے، اور عام طور پر ایک حدیث کی سند اور متن ذکرکرنے کے بعد اس کے نیچے باب الاختلاف کے ذکر رواۃ کے اپنے شیوخ سے اختلافات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
4- سند یا متن کی صحت کے لیے واضح طور پر یہ لفظ استعمال کرتے ہیں کہ ''هذا خطأ والصواب كذا'' یعنی یہ غلط ہے، اور اس میں صحیح یہ اور یہ ہے۔
5- رواۃ کے اسماء اور کنیٰ کے بارے میں بھی معلومات دیتے ہیں تاکہ رواۃ کے درمیان تمیز ہوجائے، اور التباس جاتا رہے۔ جیسے ایک ثقہ راوی ابومعشر کی ایک حدیث کی تخریج کے بعد کہتے ہیں کہ اس کا نام زیاد بن کلیب ہے، اور وہ ثقہ راوی ہے پھرتمیز کے لیے ابومعشر نجیح بن عبدالرحمن السندی کا تذکرہ کرکے اس کی تضعیف کرتے ہیں، اور اس کی منکر احادیث میں سے اس کے ضعف پر دلیل کے طور پر دو حدیث کابھی ذکر کرتے ہیں (ملاحظہ ہو: سنن نسائی: 2245)۔
6- امام نسائی خصوصی طور پر احادیث کو پوری سند کے ساتھ ذکرکرنے کا التزام کرتے ہیں، اور بہت کم اختصار سند یا تعلیق سند کا طریقہ اپنا تے ہیں۔
7- رواۃ اور احادیث پر جرح ونقد کا کام طرق احادیث کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں، اور اپنی رائے کو واضح الفاظ میں بیان کردیتے ہیں، اوربالعموم محدثین کے درمیان معروف اصطلاحات ہی کا استعمال کرتے ہیں۔
8- بسااوقات علل حدیث پر بھی گفتگو فرماتے ہیں، آپ کو علل حدیث میں غیر معمولی ملکہ حاصل تھا، حافظ ذہبی نے آپ کو اس فن میں امام بخاری، امام ابوزرعہ کا ہمسر قرار دیا ہے۔
9- امام نسائی احادیث کی ترجیح کو تراجم ابواب کے ذریعہ اور طرق احادیث کے بیان کے ذریعہ بھی کرتے ہیں، جیسے کتاب الصید والذبائح میں ''باب الإذن في أكل لحم الخيول''کے تحت گھوڑے کی حلت سے متعلق جابر رضی اللہ عنہ سے چار روایت ذکر کرتے ہیں، جو سب کے سب صحیح ہیں، اس کے بعد ''باب تحريم أكل لحوم الخيل'' کے تحت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دو حدیثیں روایت کرتے ہیں جو کہ دونوں ضعیف ہیں، پھر ایک دوسری سند سے جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح سندوں سے یہ روایت کرتے ہیں: ''كنا نأكل لحوم الخيل، قلت: البغال؟ قال: لا'' ''جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے، عبدالکریم راوی حدیث کہتے ہیں: میں نے کہا اور خچر؟ کہا: نہیں''۔
ان دونوں بابوں پر نظرڈالنے سے پتہ چلا کہ امام موصوف نے پہلے باب میں گھوڑے کی حلت سے متعلق روایات کا تذکرہ فرماکر اس کے بعد اس کے عدم جواز سے متعلق روایات کاذکر کیا، رواۃ کے تراجم ہی سے حدیث کا ضعف ظاہر ہوجاتا ہے، اس لیے کہ اس کی سند دیکھتے ہی پتہ چلا کہ اس میں دو راوی ضعیف ہیں، پھر آخر میں جابر رضی اللہ عنہ سے گھوڑے کے گوشت کھانے کی حلت کی استمراریت دکھاکر مسئلے میں اپنی رائے واضح فرمادی (سنن النسائی: 4327- 4333)۔
10- کبھی کبھی رواۃ کے اسماء والقاب اور کنیت کے ابہام کی وضاحت راویوں کے تفرد واختلاف، متابعت وعدم متابعت کا بیان سماع وعدم سماع کاذکر حدیث کے مرسل، متصل، ضعیف، منکر کی نشان دہی اور غریب الفاظ کی توضیح بھی بیان فرماتے ہیں، جن کی امثلہ ہم تطویل سے بچنے کے لیے یہاں ذکر نہیں کریں گے۔
11- امام نسائی فقہی مقاصد کے لیے احادیث کی تقطیع بھی کرتے ہیں، تاکہ اختصار کے ساتھ مطلوب فقرے سے مسئلہ کو مستنبط کرلیں، لیکن ایسا کم ہی کیا ہے۔