دواوین اسلام اورحدیث کے بنیادی مراجع میں جن کتابوں کو شمارکیا گیا ہے ان میں سنن نسائی خاص اہمیت کی حامل کتاب ہے، اس کاتذکرہ سنن ابوداود اور سنن ترمذی کے بعدکیا جاتاہے، لیکن بعض مغاربہ نے اسے صحیح بخاری سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے چنانچہ سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں: (1) صرح بعض المغاربة بتفضيل كتاب النسائي على البخاري۔
(2) اس پر مزید ابن الاحمر نے اپنے شیوخ سے نقل کیا ہے: إنه أشرف المصنفات كلها وما وضع في الإسلام مثله. (سنن نسائی سب سے اچھی کتاب ہے، اس کے ہم مثل اسلام میں کوئی اور کتاب تصنیف نہیں کی گئی)۔
(3) حافظ سیوطی اس کی صحت کے متعلق امام نسائی سے نقل کرتے ہیں: كتاب السنن كله صحيح وبعضه معلول إلا أنه لم يبين علته والمنتخب المسمى بالمجتبى صحيح كله. (مقدمہ زہرالربی) (نسائی کہتے ہیں: سنن پوری کی پوری صحیح احادیث پر مشتمل ہے، بعض احادیث معلول ہیں، لیکن امام نسائی نے ان کی علت نہیں بیان کی، مجتبیٰ سنن کبریٰ کا انتخاب ہے، اور اس کی ساری احادیث صحیح ہیں)۔
اس کے علاوہ ابوعلی نیساپوری، ابن عدی، ابوالحسن دارقطنی، ابوعبداللہ حاکم، ابن مندہ، عبدالغنی بن سعید، ابویعلی خلیلی، ابن السکن، خطیب بغدادی، ابوبکر ابن السنی، ابوطاہر سلفی وغیرہم نے سنن پر صحت کا اطلاق کیا ہے (مقدمہ زہرالربی)۔
صحیح روایات کی کثرت کی وجہ سے اس کتاب پر صحیح کا اطلاق کیا گیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر الباعث الحثیث اور علا مہ زرکشی النکت علی ابن الصلاح میں لکھتے ہیں: تسمية الكتب الثلاثة صحاحا إما باعتبار الأغلب لأن غالبها الصحاح والحسان وهي ملحقة بالصحاح والضعيف بها التحق بالحسن فإطلاق الصحة عليها من باب التغليب انتهى. (مقدمہ زہرالربی) تینوں کتابوں (سنن ابی داود، سنن نسائی اور سنن ترمذی)پر صحاح کا اطلاق اغلب احادیث کے اعتبار سے ہے، یعنی تغلیباً ہے، اس لیے کہ ان کتابوں کی اکثر احادیث صحیح اور حسن درجے کی ہیں جو ثبوت کے باب میں صحیح کے قبیل سے ہیں، اور ان میں پائی جانے والی ضعیف احادیث حسن کے قبیل سے ہیں اس لیے ان کتابوں پر صحیح کا اطلاق تغلیباً ہے یعنی غالب احادیث کے وجود کے اعتبار سے ہے۔
حافظ ابوطاہر سلفی نے مشرق ومغرب کے علماء کا کتب خمسہ (صحیحین، سنن ابی داودوالترمذی والنسائی) کی صحت پر اتفاق نقل کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ قول تساہل پر مبنی ہے، کیونکہ ان میں وہ احادیث بھی ہیں جن کے ضعیف یامنکر ہونے کی خود ان ائمہ نے تصریح کردی ہے، امام ابوداود نے تو اپنی کتاب میں موجود صحیح اور غیر صحیح احادیث کی اقسام کا تذکرہ کیا ہے، اور ترمذی صحیح، حسن اور ضعیف کی وضاحت بصراحت کرتے ہیں، امام نسائی بھی رواۃ اور احادیث پر کلام کرتے ہیں، اس لیے یہ بات تحقیق سے بعید ہے، ہاں ان کتابوں پر صحت کا اطلاق تغلیباً ہواہے، جس کی تفصیل اوپر گزری، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سنن اربعہ میں سب سے کم ضعیف احادیث سنن نسائی میں پائی جاتی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب پر صحت کا اطلاق باعتبار قلت ضعف کے ہواہے، اہل مغرب نے نسائی یا صحیح مسلم کی تفضیل کی جو بات کہی ہے، اس کا تعلق ان دونوں کتابوں میں موجودحسن ترتیب اور جامعیت سے ہے، اس لحاظ سے ان لوگوں کے نزدیک یہ زیادہ بہترکتابیں ہیں، چنانچہ ابن رشید لکھتے ہیں: إنه أبدع الكتب المصنفة في السنن تصنيفا وأحسنها ترصيفا وهو جامع بين طريقتي البخاري ومسلم مع حظ كثير من بيان العلل. (سنن نسائی سنن کی کتابوں میں سب سے ممتاز اور سب سے اچھی تصنیف ہے، اور بخاری اورمسلم کے اسلوب اور منہج کی جامع کتاب ہے، ساتھ ساتھ بہت ساری علل حدیث کو بھی بیان کردیا ہے) ابن الاحمر کے بعض مکی شیوخ کے نزدیک سنن نسائی سب سے اچھی کتاب ہے، اس طرح کی کوئی تصنیف اسلام میں اور نہیں لکھی گئی (فتح المغیث 1/83، 84، فہرست ابن خیر 117)۔
ابن رشید نے امام بخاری ومسلم کے جن طریقوں کی جامعیت کی طرف اشارہ کیا ہے، معلوم ہوتاہے کہ یہ جامعیت باعتبار فقیہانہ ومحدثانہ انداز کے ہے جوکہ اول امام بخاری میں اور ثانی امام مسلم میں بکثرت موجود ہے، محدثانہ انداز تو احادیث کی تحویل اسناد سے اور استنباط کثرت ابواب سے واضح ہے، علامہ محمد منیر الدین السلفی نموذج الاعمال الخیریہ میں فرماتے ہیں: وقد امتازت هذه السنن عن غيرها بكثرة التبويب ودقة الاستنباط. (نموذج 636) (یہ کتب سنن دوسری کتابوں سے تبویب کی کثرت اور استنباط کی باریکی کی وجہ سے ممتاز ہیں)۔