1- الاعتكاف (6) 3/ 377 من الكبرى (3320- 3413)
2- العتق (18) 5/ 5 من الكبرى (4854- 5030) (العتق والتدبير والمكاتب وأم الولد).
3- الحد في الخمر (20) 5/ 131 من الكبرى (5250- 5284)
4- إحياء الموات (23) 5/ 323 من الكبرى (5724- 5757)
5- العارية والوديعة (24) 5/ 331 من الكبرى (5744- 5757)
6- الضوال (25) 5/ 337 من الكبرى (5758- 5772)
7- اللقطة (26) 5/ 343 من الكبرى (5773- 5800)
8- الركاز (27) 5/ 355 من الكبرى (5801- 5805)
9- العلم (28) 5/ 357 من الكبرى (5806- 5884)
10- الفرائض (31) 6/ 97 من الكبرى (6271- 6387)
11- الوليمة (38) 6/ 203 من الكبرى (6560- 6746)
12- وفاة النبي ﷺ (40) 6/ 379 من الكبرى (7040- 7085)
13- الرجم (41) 6/ 399 من الكبرى (7086- 7313)
14- الطب (42) 7/ 45 من الكبرى (7436- 7573)
15- التعبير (43) 7/ 103 من الكبرى (7574- 7611)
16- النعوت (الأسماء والصفات) (44) 7/ 123 من الكبرى (7612- 7721)
17- فضائل القرآن (47) 7/ 241 من الكبرى (7922- 8047)
18- المناقب (مناقب أصحاب رسول الله ﷺ) (48) 7/ 293 من الكبرى (8048- 8526)
19- الخصائص (خصائص علي رضي الله عنه) (49) 7/ 407 من الكبرى (8332- 8526)
20- السير (50) 8/ 5 من الكبرى (8527- 8835)
21- عمل اليوم والليلة (53) 9/ 5 من الكبرى (9743- 10913)
22- التفسير (54) 10/ 5 من الكبرى (11914- 11653)
23- الشروط (55) 10/ 353 من الكبرى (11654- 11754) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
24- الرقائق (56) 10/ 375 من الكبرى (11755- 11827) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
25- المواعظ (57) 10/ 399 من الكبرى (11828- 11875) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
26- الملائكة (58) 10/ 409 من الكبرى (11871- 11949) (وهذا مأخوذ من تحفة الأشراف).
دونوں کتابوں کے جائزے سے چندنتائج برآمد ہوتے ہیں
1- سنن صغریٰ میں سنن کبریٰ کی (26) کتابیں شامل نہیں ہیں، جن میں سنن صغریٰ سے (4000) سے زائد احادیث ہیں، اس سے سنن کبریٰ کی ضخامت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے، جس میں (70) کتابیں ہیں اوراحادیث کی تعداد (11949) ہے، جب کہ صغریٰ میں کتابوں کی تعد اد (51) ہے، جس میں (5761) احادیث ہیں۔
2- سنن صغریٰ میں بہت ساری ایسی کتابیں ہیں جنہیں سنن کبریٰ سے بعینہ یا بعض معمولی تبدیلی کے بعد رکھ دیا گیا ہے، جیسے کتاب الزکاۃ، کتاب الجنائز، کتاب الجہاد، کتاب الطلاق اور کتاب الضحایاوغیرہ۔
3- سنن کبریٰ کی کتابوں سے بعض احادیث کا بعض کتابوں میں انتخاب کیا گیاہے، اور یہ بہت زیادہ ہے، اس لیے کہ سنن صغریٰ کا موضوع ہی انتخاب ہے، بالخصوص ان احادیث کا جن کا تعلق احکام سے ہے۔
4- سنن صغریٰ میں بعض کتب، ابواب اور احادیث سنن کبریٰ سے زائد اور مستقل پائی جاتی ہیں، اور ابواب کے صیغے میں بھی بعض کمی زیادتی ہے۔
5- سنن کبریٰ میں جو کتب وابواب اور احادیث ہیں اس سے پتہ چلتاہے کہ اس کتاب کو جامع کا نام بھی دیاجاسکتاہے، اس لیے کہ حدیث کے آٹھوں بڑے عنوان کی حامل یہ کتاب ہے، علمائے حدیث کی اصطلاح میں جامع ایسی کتاب کو کہتے ہیں جس میں حدیث کی ساری اقسام پائی جائیں، یعنی عقائد، احکام، رقاق (زہد، ورع) آداب اکل وشرب، آداب سفر وقیام وقعود، تفسیر، تاریخ وسیر، فتن وملاحم اور مناقب وفضائل اور مثالب سے متعلق احادیث پر مشتمل جامع کتاب۔
6- سنن کبریٰ فقہی اور حدیثی نقطہ نظر سے ایک جامع اور ضخیم کتاب ہے، عملاً اس کے اور سنن صغریٰ کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں ہے، البتہ سنن صغریٰ کا انتخاب بعد میں عمل میں آیا اور اس میں احکام سے متعلق احادیث کو جگہ دی گئی جس میں فقہی ترتیب کے ساتھ اختصار کا انداز اختیار کیا گیا صرف کتاب الإیمان وشرائعہ ایک ایسی کتاب ہے جو فقہی احکام سے باہر ہے۔
8- سنن کبریٰ میں رواۃ پر جرح وتعدیل اور بعض احادیث پر شذوذ اور نکارت وغیرہ کے احکام سے متعلق ایک فہرست سنن کبریٰ کے آخر میں کتاب کے محققین نے دی ہے، جس میں امام نسائی کے (381) اقوال کا تذکرہ ہے، اور اس کے بعد آٹھ صفحوں میں ان رواۃ کی فہرست ہے جن پر امام نسائی نے کلام کیا ہے، ایسے ہی شیخ فالح شبیلی نے سنن صغریٰ اور دوسری کتابوں میں موجود امام نسائی کے رواۃ پر کلام کو مدون کرکے المستخرج من مصنفات النسائی فی الجرح والتعدیل کے نام سے شائع کیا ہے، واضح رہے کہ امام نسائی کی کتاب الضعفاء والمتروکین پر کتاب ہے جو مطبوع ہے، اور اہل علم نے لکھاہے کہ نسائی نے (3000) سے زائدرواۃ پر جرح وتعدیل کا کام کیاہے۔