ستر ہزار احایث کا حفظ اور آپ کی عمر:
ان دنوں شہر بخارا میں علوم قرآن و حدیث کے بہت سے مراکز تھے۔ جہاں «قال الله وقال الرسول» کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ امام ان مراکز سے استفادہ فرمانے لگے۔ ایک دن محدث بخارا امام داخلی رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں شریک تھے کہ امام داخلی نے ایک حدیث کی سند بیان کرتے وقت «سفيان عن ابي الزبير عن ابراهيم» فرما دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ بولے کہ حضرت یہ سند اس طرح نہیں ہے کیونکہ ابو الزبیر نے ابراہیم سے روایت نہیں کی ہے۔ ایک نوعمر شاگرد کی اس گرفت سے محدث بخارا چونک پڑے اور خفگی کے لہجے میں آپ سے مخاطب ہوئے۔ آپ نے استاد محترم کا پورا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے فرمایا کہ اگر آپ کے پاس اصل کتاب ہو تو اس کی طرف مراجعت فرما لیجئے۔ علامہ نے گھر جا کر اصل کتاب کو ملاحظہ فرمایا تو امام بخاری کی گرفت کو تسلیم فرما لیا اور واپسی پر اس سند کی تصحیح کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ امام بخاری نے برجستہ جواب دیا کہ صحیح سند یوں سے «سفيان عن الزبير وهو ابن عدي عن ابراهيم» ۔ اس وقت امام بخاری رحمہ اللہ کی عمر صرف گیارہ سال کی تھی۔

انہی ایام میں آپ نے بخارا کے اٹھارہ محدثین سے فیوض حاصل کرتے ہوئے بیشتر ذخیرہ احادیث محفوظ فرما لیا تھا۔ امام وکیع اور امام عبداللہ بن مبارک کی کتابیں آپ کو برنوک زبان یاد تھیں۔ علامہ داخلی کے ساتھہ واقعہ مذکورہ سے بخارا کے ہر علمی مرکز میں آپ کا چرچا ہونے لگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے اساتذہ کرام آپ کے حفظ و ذہانت کے قائل ہونے لگے۔

علامہ بیکندی علیہ الرحمہ جو ایک مشہور محدث بخار ہیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ میرے حلقہ درس میں جب بھی محمد بن اسماعیل آجاتے ہیں مجھہ پر عالم تحیر طاری ہو جاتا ہے۔ ایک دن ان علامہ کی خدمت میں ایک بزرگ سلیم بن مجاہد حاضر ہوئے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم ذرا پہلے آ جاتے تو ایک ایسا ہونہار نوجوان دیکھتے جسے ستر ہزار حدیثیں حفظ ہیں۔ سلیم بن مجاہد یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئے۔ اور سیدنا امام کی ملاقات کے اشتیاق میں نکلے۔ ملاقات ہوئی تو امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نہ صرف ستر ہزار بلکہ ان سے بھی زائد احادیث مجھے یاد ہیں۔ بلکہ سلسلہ سند، حالات رجال سے جیسا بھی سوال کریں گے جواب دوں گا حتی کہ اقوال صحابہ و تابعین کے بارے میں بھی بتلا سکتا ہوں کہ وہ کن کن آیات قرآنی و احادیث نبوی سے ماخوذ ہیں۔ [مقدمہ فتح الباری]