امام نسائی نے سب سے پہلے سنن کبریٰ کی تالیف کی، جو دیوان النسائی اور مصنف النسائی کے نام سے بھی مشہور ہے، یہ کتاب ہم تک ابن الاحمر کی روایت سے پہنچی ہے، مؤسسۃ الرسالۃ کے ایڈیشن کے مطابق سنن کبریٰ میں (11949) احادیث ہیں، سنن صغری (المجتبیٰ) کو امام نسائی نے امیر رملہ کے کہنے پر مرتب کیا، اس میں (5761) احادیث ہیں، علامہ جمال الدین قاسمی سنن کبریٰ کے بارے میں کہتے ہیں: هو كتاب جليل لم يكتب مثله في جمع طرق الحديث وبيان مخرجه وبعده اختصره (سنن کبریٰ بڑی عظیم کتاب ہے، طرق حدیث کے جمع کرنے اور حدیث کے مخارج کے بیان کرنے میں، بے مثال ہے، بعد میں امام نسائی نے اس کو مختصر کیا)۔
سنن نسائی (صغریٰ) امام نسائی کی تصنیف ہے، جس کی روایت ابن السنی سے ہم تک پہنچی ہے، اوپر مذکور امیر رملہ کے واقعہ کی حافظ ذہبی نے تغلیط کی ہے، ان کی تحقیق میں سنن صغریٰ ابن السنی کی تصنیف ہے، کہتے ہیں: إن هذه الرواية لم تصح بل المجتبى اختصار ابن السني تلميذ النسائي (امیر رملہ والی روایت صحیح نہیں ہے، مجتبیٰ (سنن صغریٰ) نسائی کے تلمیذ ابن السنی کا اختصار ہے) (السیر 14/131، توضیح الافکار 1/221)۔
نیز کہتے ہیں: ہمیں نسائی کی صرف کتاب المجتنی ابوبکر ابن السنی کے انتخاب سے پہنچی ہے (14/133) اور ابن السنی کے ترجمے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی سنن نسائی کا اختصار کیا، اور صرف اس مختصر ہی کی روایت کی، اور اس کا نام المجتنی رکھا، ہم نے ابن السنی کے طریق سے اسے بسندعالی سناہے (السیر 16/256، وتذکرۃ الحفاظ 3/940)اور یہی بات سبکی نے طبقات الشافعیہ میں ابن السنی کے ترجمہ میں لکھی ہے (3/39) اور ابن ناصرالدین الدمشقی نے بھی یہی لکھاہے (شذرات الذہب 3/48)۔
لیکن صحیح یہی ہے کہ امام نسائی نے پہلے السنن الکبریٰ تصنیف فرمائی، پھر اس کا اختصار ''المجتبی یا المجتنی ''کے نام کیا، سنن صغریٰ کے راوی ابن السنی ہیں، اور سنن کبریٰ کے ابن الاحمر۔
معاصر محقق سلفی عالم شیخ عبدالصمد شرف الدین الکتبی رحمہ اللہ نے سب سے پہلے سنن کبریٰ کی تین جلدیں شائع کیں، آپ نے پہلی جلدکے مقدمہ میں واضح کیا ہے کہ دونوں کتابیں خود امام نسائی کی مرتب کردہ ہیں، اور یہ کہنا کہ ابن السنی نے المجتنی کو منتخب کیا ہے، امام ذہبی کاوہم ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ خود ذہبی نے سنن کبریٰ دیکھی ہی نہیں تھی، جیسا خود ذہبی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کو صرف المجتبی یعنی سنن صغریٰ پہنچی ہے (السیر 14/133)، تذکرۃ الحفاظ میں کہتے ہیں: میں نے المجتبیٰ من السنن پوری کی پوری ابوزرعۃ مقدسی کے طریق سے سنی ہے (2/701)۔
حافظ ابن کثیر کے پاس دونوں کتابیں تھیں اورانہیں دونوں کتابوں کا سماع حاصل تھا، کہتے ہیں: نسائی نے سنن کبریٰ کو لکھا، پھر اس کا انتخاب کیا، جو اس سے کئی گنا چھوٹا ہے، میں نے دونوں کو سناہے (البدایۃ والنہایۃ 14/793)
سنن کبریٰ کے راوی محمد بن معاویہ بن الاحمر کہتے ہیں کہ امام نسائی نے کہا: کتاب السنن پوری کی پوری صحیح ہے، بعض احادیث معلول ہیں، لیکن امام نسائی نے ان کی علت نہیں بیان کی، اس سے منتخب شدہ کتاب کا نام مجتبیٰ ہے، جس کی ساری احادیث صحیح ہیں (النکت علی ابن الصلاح 1/484)۔
خود امام نسائی اپنی کتاب کو الصحیح کا نام دیتے تھے (التقیید 141، والبدایہ والنہایۃ 14/793)
مولانا عبدالصمد شرف الدین الکتبی رحمہ اللہ نے سنن صغریٰ اورسنن کبریٰ دونوں سے کتاب الطہارۃ کے ابواب اورکتب کا تقابلی مطالعہ کرکے اس مسئلے کو مزید واضح کیا ہے، نیز ڈاکٹر فاروق حمادہ نے عمل الیوم واللیلۃ کے مقدمہ تحقیق میں اس مسئلے پر گفتگوکی ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ المجتبیٰ (سنن صغریٰ) نسائی کی تالیف ہے، اور اس کی روایت ابن السنی نے کی ہے۔
سنن کبریٰ اور سنن صغریٰ میں موجود کتابوں کا تذکرہ
اور اُن کتابوں کا ذکر جو سنن کبریٰ میں ہیں، اور سنن صغریٰ ان سے خالی ہے
اوپر گزرا کہ امام نسائی نے پہلے کبریٰ کی تالیف فرمائی اس کے بعداس سے صغریٰ کا انتخاب فقہی ترتیب پر کیا، چونکہ دونوں کتابوں کی احادیث اور دونوں میں موجود کتب میں اختلاف اور تقدیم اورتاخیر ہے اس لیے پہلے ہم ذیل میں سنن صغریٰ میں وارد کتب کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کے بعد سنن کبریٰ کی کتابوں کا تذکرہ ہوگا، اور آخر میں سنن کبریٰ میں موجود زائد کتابوں کا ذکر ہوگا: