امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختلف درجے ہیں، آپ نے ابن داسہ کا یہ قول نقل کیا کہ”میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی ہیں، اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے“، ذہبی کہتے ہیں: ”میں کہتا ہوں: امام رحمہ اللہ نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ضعف والی احادیث کو جس کا ضعف قابل برداشت نہیں تھا بیان کردیا، اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا، تو ایسی حالت میں آپ کے کسی حدیث پر سکوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حدیث آپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو، بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پر اپنی جدید اصطلاح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقسام میں سے ایک قسم کی طرف لوٹتی ہے، اور جمہور علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے، یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے ہیں، وبالعکس، تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے، اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واستدلال کی حد سے خارج ہوجاتی، اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے، تو ابو داود کی کتاب السنن میں:
1- سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے، اور جو تقریباً نصف کتاب پر مشتمل ہے۔
2- اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ایک نے کی، اور دوسرے نے نہیں کی ہے۔
3- پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا، اور وہ جید الاسناد ہیں اور علت وشذوذ سے محفوظ ہیں۔
4- پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے، اور علماء نے ان کو دو یا اس سے زیادہ ضعیف طرق سے آنے کی وجہ سے قبول کر لیا ہے کہ ان میں سے ہر سند دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہے۔
5- پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے، ایسی احادیث کو ابو داود قبول کر لیتے ہیں اور اکثر اس پر سکوت اختیار فرماتے ہیں۔
6- ان کے بعد سب سے آخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے، ایسی روایتوں پر وہ عام طور سے خاموش نہیں رہتے ہیں، ان کا ضعف ذکر کردیتے ہیں۔
7- اور اگرکبھی خاموش رہتے بھی ہیں تو اس کی وجہ اس کے ضعف کی شہرت و نکارت ہوتی ہے، واللہ اعلم“ (السیر 13؍ 214- 215)۔