وفات:
خالد بن ذہلی حاکم بخارا کی بابت لکھا جا چکا ہے کہ وہ سید المحدثین سے محض اس بنا پر کہ آپ نے درس حدیث کے لیے شاہی دربار میں جانے اور اس کے صاحبزادوں کے لیے وقت مخصوص کرنے سے انکار فرما دیا تھا، مخالفت پر آمادہ ہو گیا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ کسی بہانہ سے سیدنا امام کو شہر بخارا سے نکال دیا جائے۔ جس میں وہ اس زمانہ کے علمائے سوء کے تعاون سے کامیاب ہو گیا۔ انہوں نے سیدنا امام پر عقائد کے بارے میں الزام لگایا اور پھر حفظ امن کے بہانے سے سیدنا امام کو بخارا سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ آپ بادل ناخواستہ بخارا سے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ اے اللہ! ان لوگوں نے میرے ساتھ جو ارادہ کیا تھا۔ وہی صورت حال ان کو اپنے اور ان کے اہل و عیال کے بارے میں دکھلا دے۔ مظلوم امام کی دعا قبول ہوئی۔ اور ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ ذہلی امیر طاہر کے حکم سے معزول کر کے گدھے پر پھرایا گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ اور حریث بن ابی ورقاء جو آپ کے نکلوانے میں سازشی تھا۔ اس کو اور اس کے گھر والوں کو سخت مصیبت پیش آئی۔ اور دوسرے مخالفین بھی اسی طرح غائب و خاسر ہوئے۔

دنیا کا یہی دستور ہے ایک دن وہ تھا کہ سیدنا امام بخاری اپنے علمی اسفار سے بخارا واپس لوٹے تو شہر سے تین میل کے فاصلے پر ان کے لیے ڈیرے لگائے گئے۔ اور پورا شہر ان کے استقبال کے لیے امنڈ آیا اور ان پر روپے اور اشرفیاں تصدق کئے گئے۔ ایک دن آج ہے کہ سیدنا امام کو اپنے وطن مالوف سے نکالا جا رہا ہے اور وہ دست بدعا، بے کسی کی حالت میں وطن سے بے وطن ہو رہے ہیں۔ آپ بخارا سے چل کر بیکند پہنچے۔ وہاں سے سمرقند والوں کی دعوت پر سمر قند کے لیے دعوت قبول فرمائی۔

خرتنگ نامی ایک گاؤں میں جو مضافات سمرقند سے تھا، آپ پہنچے ہی تھے کہ طبیعت خراب ہو گئی اور وہاں اپنے اقرباء میں اتر گئے۔ ایک رات آپ نے اللہ سے دعا کی کہ الٰہ العالمین اب زمین میرے لیے تنگ نظر آ رہی ہے، بہتر ہے کہ تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ آخر ۱۳ دن کم ۶۲ سال کی عمر میں یہ آفتاب حدیث خرتنگ کی زمین میں غائب ہو گیا۔ «انالله وانا اليه راجعون»

روح پرواز کر جانے کے بعد بھی برابر جسم پر پسینہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ آپ کو غسل دے کر کفن میں لپیٹ دیا گیا۔ کچھ لوگ سمرقند لے جانے کے خواہشمند ہوئے۔ مگر خرتنگ ہی میں تدفین کے لیے اتفاق ہو گیا۔ عیدالفطر کے دن نماز ظہر کے بعد آپ کا جنازہ اٹھایا گیا۔ ایک خلق کثیر نے تدفین میں شرکت کی۔ اور آج وہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آفتاب عالمتاب، دنیائے اسلام کا محسن اعظم خاک میں چھپ گیا اور دنیا میں تاریکی ہو گئی۔ ایک شاعر نے آپ کے سال ولادت اور سال وفات ہر دو کو ایک ہی بند میں جمع کر دیا ہے، فرماتے ہیں۔ «كان البخاري حفظا و محدثا ...... جمع الصحيح مكمل التحرير» «ميلاده صدق ومدة عمره فيها ...... حميد وانقضي فى نور» ۱۹۴ ...... ۶۲ ...... ۲۵۶

خطیب عبدالواحد بن آدم کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں چند اصحاب کرام کے ساتھ کسی کا منتظر دیکھا۔ سلام کے بعد عرض کیا حضور کس کا انتظار فرما رہے ہیں؟ ارشاد ہوا کہ میں آج محمد بن اسماعیل بخاری کے انتظار میں کھڑا ہوا ہوں۔ بعد میں جب سیدنا امام کے انتقال کی خبر پہنچی تو میں نے خواب کے وقت کے بارے میں سوچا، امام کے انتقال کا ٹھیک وہی وقت تھا۔ آپ کی وفات حسرت آیات پر دنیائے اسلام میں ایک تہلکہ برپا ہو گیا۔ ہر شہر قریہ میں مسلمانوں نے اظہار غم کیا۔ اور آپ کے لیے دعائے مغفرت کی۔ علمائے امت اور مشاہیر اسلام نے اس سانحہ پر بہت سے مقالہ جات اور اشعار لکھے جو کتب تواریخ میں لکھے ہوئے ہیں۔