وجہ تالیف الجامع الصحیح البخاری:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلا لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا۔ ایک تو اس لئے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔

خلیفہ خامس عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے حدیث کو ایک فن کی حیثیت سے جمع کرانے کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ میں ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام آتے ہیں جنہوں نے اس فن شریف پر باضابطہ قلم اٹھایا۔ اب وہ دور ہو چلا تھا جس میں اہل بدعت نے من گھڑت احادیث کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر طبقہ ثالثہ کے لوگ اٹھے اور انہوں نے احکام کو جمع کیا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے موطا تصنیف کی جس میں اہل حجاز کی قوی روایتیں جمع کیں، اور اقوال صحابہ فتاوی و تابعین کو بھی شریک کیا۔ ابو محمد عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مکة المکرمہ میں اور ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں اور عبداللہ سفیان بن سعدی ثوری نے کوفہ میں اور ابو سلمہ حماد بن سلمہ دینار نے بصرہ میں حدیث کی جمع ترتیب و تالیف پر توجہ فرمائی۔ ان کے بعد بہت سے لوگوں نے جمع احادیث کی خدمت انجام دی اور دوسری صدی کے آخر میں بہت سی مسندات وجود پذیز ہو گئیں جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام اسحق بن راہویہ، مسند امام عثمان بن ابی شیبہ، مسند امام ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں سید المحدثین امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ کا دور آیا۔ آپ نے ان جملہ تصانیف کو دیکھا، ان کو روایت کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کتابوں میں صحیح اور حسن ضعیف سب قسم کی احادیث موجود ہیں۔