عباسی حکومت کا پایہ تخت بغداد کبھی دنیائے اسلام کا مرکز اور اسلامی علوم و فنون کا بیش بہا مخزن رہ چکا ہے۔ یہی سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کی شہرت و علمی قبولیت کا زمانہ ہے۔ متکلمین و محدثین فقہاء ومفسرین اطراف عالم سے سمٹ سمٹ کر بغداد میں جمع ہو چکے تھے۔ اس دور میں امام بخاری رحمہ اللہ بغداد میں تشریف لائے۔ پورا بغداد آپ کی شہرت سے گونج اٹھا۔ ہر مسجد ہر مدرسہ ہر خانقاہ میں آپ کے ذہن و حفظ و ذہانت و مہارت حدیث کا چرچا ہونے لگا۔ آخر دارالخلافہ کے بعض محدثین نے آپ کے امتحان کی ایک ترکیب سوچی وہ یہ کہ سو احادیث نبوی میں سے ہر حدیث کی سند دوسری حدیث کے متن میں ملا دی اوران کو دس آدمیوں پر برابر تقسیم کر دیا اور مقررہ تاریخ پر مجمع عام میں آپ کے امتحان کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ مقررہ وقت پر سارا شہر امنڈ آیا۔ ان دس آدمیوں نے نمبروار اختلاط کی ہوئی احادیث امام صاحب کے سامنے پڑھنی شروع کیں۔ اور آپ سے استصواب چاہا۔ مگر آپ ہر شخص اور ہر حدیث کے بارے میں یہی فرماتے رہے کہ «لا اعرفه» (میں اس حدیث کو نہیں جانتا) اس طرح جب سو احادیث ختم ہو چکیں تو لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔ کسی کا خیال تھا کہ امام حقیقت حال کو پہچان چکے ہیں۔ اور کسی کا خیال تھا کہ آپ نے محدثین بغداد کے سامنے سپر ڈال دی ہے۔
امام المحدثین اسی وقت کھڑے ہوکر پہلے سائل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: «اما حديثك الاول فبهذا الاسناد خطاءو صوابه كذا» یعنی تم نے پہلی حدیث جس سند سے بیان کی تھی وہ غلط تھی اس کی اصل سند یہ ہے۔ اسی طرح آپ نے دسوں اشخاص کی سنائی ہوئی احادیث کو بالکل صحیح درست کر کے بہ ترتیب سوالات پڑھ کر سنا دیا۔ اس خداداد حافظہ و مہارت فن حدیث کو دیکھ کر اہل بغداد حیرت زدہ ہوگئے۔ اور بالا تفاق تسلیم کر لیا کہ فن حدیث میں عصر حاضر میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔