عبادت میں آپ کا استغراق اس درجہ تھا کہ امام کو ایک باغ میں مدعو کیا گیا۔ جب امام ظہر کی نماز سے فارغ ہوگئے تو نوافل کی نیت باندھ لی۔ نماز سے فراغت کے بعد قمیص کا دامن اٹھا کر کسی سے فرمایا کہ دیکھنا قمیض میں کوئی موذی جانور محسوس ہو رہا ہے۔ دیکھا گیا تو ایک زنبور نے سترہ جگہ ڈنگ لگائے تھے۔ اور جسم کے نیش زدہ حصوں پر ورم آرہا تھا۔ کہا گیا کہ آپ نے پہلی ہی بار کیوں نہ نماز چھوڑ دی۔ امام نے فرمایا کہ میں نے ایک ایسی سورة شروع کر رکھی تھی کہ درمیان میں اس کا قطع کرنا گوارا نہ ہوا۔ آخر رات میں تیرہ رکعتوں کا آپ ہمیشہ معمول رکھتے تھے۔ اسوہ حسنہ کی پیروی میں تہجد کی نماز کبھی ترک نہ فرماتے۔ رمضان شریف میں نماز تراویح سے فارغ ہو کر نصف شب سے لے کر سحر تک خلوت میں تلاوت قرآن پاک فرماتے اور ہر تیسرے دن ایک قرآن کریم ختم فرما دیتے اور دعا کرتے اور فرماتے کہ ہر ختم پر ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
اتباع سنت کا اس قدر جذبہ تھا کہ خالص اسوہ حسنہ کے پیش نظر تیر اندازی کی مشق فرمائی۔ اس قدر کہ آپ کا نشانہ کبھی چوکتا نہیں دیکھا گیا ایک دفعہ آپ کا تیر ایک پل کی میخ پر جا لگا جس سے پل کا نقصان ہو گیا۔ آپ نے پل کے مالک سے درخواست کی کہ یا تو پل کی مرمت کے لئے اجازت دی جائے یا اس کا تاوان لے لیا جائے تاکہ ہماری غلطی کی تلافی ہو سکے۔ پل کے مالک حمید بن الاخضر نے جواب میں آپ کو بہت بہت سلام کہلا بھیجا اور کہا کہ آپ بہر حال صورت بے قصور ہیں۔ میری تمام دولت آپ پر قربان ہے۔ پیغام پہنچنے پر آپ نے پانچ سو احادیث بیان فرمائی اور تین سو درہم بطور صدقہ فقراء و مساکین میں تقسیم فرمائے۔ [مقدمہ فتح الباری]