جامع میں امام ترمذی کی بعض عادات اور اسلوب بیان:
جامع ترمذی کا مقام گو صحیح بخاری و مسلم کے بعد ہے، تاہم اس میں بعض ایسے فوائد موجود ہیں جن سے دیگر جملہ کتب ِحدیث یکسر خالی ہیں۔ چنانچہ صاحب تحفة الأحوذي فرماتے ہیں کہ امام ترمذی کے جامع میں چند اُسلو ب اور عادات درج ذیل ہیں:
1 آپ اس باب کا عنوان قائم کرتے ہیں جس میں کسی صحابی سے ایسی مشہور حدیث وارد ہوئی ہو جس کی سند اس صحابی تک صحیح ہو اور وہ کتب ِصحاح میں بھی بیان کی گئی ہو پھر اس باب میں وہی حکم کسی دوسرے صحابی کی حدیث سے بیان کرتے ہیں اور وہ حدیث اس صحابی سے کتب ِصحاح میں موجود نہیں ہوتی اور اس حدیث کی سند بھی ما قبل حدیث کی سند سے مختلف ہوتی ہے مگر اس کا حکم صحیح ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد امام ترمذی رحمہ الله «وفي الباب عن فلان وفلان» کہہ کر صحابہ کی ایک جماعت کے نام ذکر کرتے ہیں جن سے اس معنی کی روایات وارد ہوتی ہیں اور ان میں اس صحابی کانام بھی بیان کر دیتے ہیں جس کی حدیث سے باب کا حکم اخذ کیا گیا ہوتا ہے اور وہ باب کی اصل حدیث کے بعد بیان کی گئی ہوتی ہے۔ اس طریق کار سے امام ترمذی کے پیش نظر مندرجہ ذیل مقاصد ہوتے ہیں:
1۔ علما اس غیر مشہور حدیث پر مطلع ہو جائیں۔
2۔ حدیث کی سند میں موجود علت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے۔
3۔ اس حدیث میں الفاظ کی کمی و بیشی کا بیان مقصود ہوتا ہے۔
2 امام ترمذی رحمہ الله پہلے باب کا عنوان قائم کرتے ہیں پھر اس کے تحت ایک یا ایک سے زائد احادیث بیان کرتے ہیں۔ اگر کسی میں کوئی کلام ہو تو اس کی وضاحت کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد «وفي الباب عن فلان وفلان» سے اس کے متعدد طرق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ الله تدریب الراوی میں فرماتے ہیں:
امام ترمذی رحمہ الله کی اس سے مراد باب میں مذکورہ متعین حدیث نہیں ہوتی بلکہ دیگر وہ احادیث مراد ہوتی ہیں جن کا اس باب میں ذکر کرنا مناسب ہوتا ہے۔
امام عراقی رحمہ الله کہتے ہیں کہ یہی بات صحیح ہے، اگرچہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ الله جن صحابہ کے نام بیان کرتے ہیں وہ بعینہٖ اس حدیث کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں جسے امام صاحب نے باب کے تحت بیان کیا ہوتا ہے حالانکہ بات ایسے نہیں ہے بلکہ کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی امام ترمذی رحمہ الله کی مراد کوئی اور حدیث ہوتی ہے جسے اس باب میں بیان کرنا مناسب ہوتا ہے۔
3 عموماًً امام ترمذی رحمہ الله «وفي الباب عن فلان وفلان» کہتے ہیں یعنی صحابہ کے نام ذکر کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی «عن فلان عن أبيه» کہہ دیتے ہیں یعنی صحابی کے بیٹے کا نام ذکر کرتے ہیں جو اپنے باپ سے راویت کر رہا ہوتا ہے، مثال کے طور پر امام ترمذی باب «لاتقبل صلوٰة بغير طهور» میں فرماتے ہیں: «وفي الباب عن أبي المليح عن أبيه» ان کا یہ فعل مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے:
1۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ بعض صحابہ ایسے بھی ہیں جن سے صرف ان کا بیٹا ہی روایت کرتا ہے، بیٹے کے سوا کسی اور کی روایت ان سے ثابت نہیںجیسا کہ أبوالملیح ہے۔ ان کے والد کانام أسامة بن عمیر ہذلي بصري ہے۔
2۔ صحابی کے نام میں اختلاف کی وجہ سے اس کے بیٹے کا ذکر کر دیتے ہیں۔
3۔ صحابی کے والد کے نام یا نسب وغیرہ میں اختلاف کی وجہ سے بیٹے کا نام لیتے ہیں۔
4۔ صحابی کانام صرف ان کے بیٹے کے نام سے مشہور ہوتا ہے۔
4 امام ترمذی رحمہ الله کی عام عادت یہ ہے کہ وہ جب کسی باب میں کسی صحابی سے باب کی اصل مشہور حدیث بیان کرتے ہیں تو اپنے اس قول «وفي الباب» کے بعد اسی صحابی کا نام نہیں دہراتے، مثال کے طور پر جب کسی باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ نہیں کہتے: «وفي الباب عن أبي هريرة»
5 بعض اوقات امام ترمذی رحمہ الله باب کا عنوان قائم کرتے ہیں۔ پھر باب کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: «وفي الباب عن فلان» یعنی صحابی کانام ذکر کرتے ہیں۔ پھر اسی صحابی سے وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی طرف اُنہوں نے اپنے اس قول «وفي الباب عن فلان» کے ساتھ اشارہ کیا ہوتا ہے۔ ان کے اس فعل سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس مشار الیہ صحابی کی حدیث سے ان کی مراد وہ حدیث ہوتی ہے جسے وہ بعد میں ذکر کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ باب زکاۃ البقر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث «في ثلاثين من البقر تبيع» بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں «وفي الباب عن معاذ بن جبل رضي الله عنه» پھر ان سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا: «بعثني النبى إلى اليمن فأمر ني أن آخذ من كل ثلاثين بقرة تبيعا» [مقدمه تحفة: ص305، 307]
(مولاناشفیق مدنی استاذالحدیث جامع لاہور الاسلامیہ)