امام ترمذی کی بعض تعبیرات:
امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر یہ طریقہ اپنایا ہے کہ پہلے ترجمۃ الباب لاتے ہیں اور اس باب کے تحت کسی مشہور صحابی سے مروی صحیح حدیث ذکر کرتے ہیں جس کی تخریج کتب صحاح میں ہو چکی ہے۔ لیکن ترجمۃ الباب کے طور پر باب میں مذکورحکم کسی دوسرے صحابی سے مروی دوسری غیر مذکور حدیث سے نکلتا ہے لیکن اس کی تخریج انہوں نے نہیں کی ہے تو اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں اگرچہ وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کا حکم صحیح ہو۔ پھر اس بعد کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ اور پوری ایک جماعت کو ذکر کرجاتے ہیں جن میں وہ صحابی بھی شامل ہوتے ہیں جن کی حدیث سے باب کا حکم نکلتا ہے۔ اور ایسا چند ابواب میں ہی ہوا ہے۔
اس طریقہ کے اپنانے میں بہت سارے فائدے ہیں:
ایک یہ کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو وہ غیر معروف و مشہور حدیث معلوم ہوجائے۔
اور دوسرے یہ کہ اس کو بیان کرنے سے مقصود اس حدیث میں پائی جانے والی علتوں کو واضح کرنا ہے۔
اور تیسرے یہ کہ اس حدیث میں زیادتی یا کوئی دوسری ہو تو اس کو ظاہر کرنا۔
امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر یہ طریقہ اپنایا ہے کہ پہلے ترجمۃ الباب لاتے ہیں اور پھر اس باب کے تحت ایک یا چند حدیثیں ذکر کرتے ہیں پھر اگر ان حدیثوں میں کوئی کلام ہوتا ہے تو اس پر کلام کرتے ہیں پھر یہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔
حافظ سیوطی نے تدریب الراوی کے اندر لکھا ہے کہ امام ترمذی باب کے تحت جو یہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتا ہے کہ: بعینہ یہی حدیث ان لوگوں نے روایت کی ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس ضمن میں ان ان صحابہ سے احادیث مروی ہیں۔ جو اس باب کے تحت آتی ہیں، عراقی کہتے ہیں کہ امام ترمذی کا ایسا کرنا درست ہے مگر زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی حدیث بعینہ ان لوگوں نے روایت کی ہے جب کہ اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد ہوتا ہے کہ اس ضمن میں ان ان صحابہ سے احادیث مروی ہیں۔ جن میں سے بعض حدیثیں بعینہ ہوسکتی ہیں اور بعض مختلف ہوسکتی ہیں جن کا اس باب میں بیان کرنا صحیح ہوگا۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ ترجمۃ الباب کے تحت جن حدیثوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو بعض میں صحابی کے نام کی صراحت ہوتی ہے کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ اور بعض میں اس صحابی کے نام کی صراحت نہیں ہوتی ہے بلکہ ''عن فلان عن أبيه'' ہوتا ہے یعنی صحابی کے نام کے بجائے ان کے بیٹے کا نام ہوتا ہے اور صحابی کی کنیت مذکور ہوتی ہے۔ جیساکہ اس باب کے تحت: بغیر طہارت کے صلاۃ قبول نہیں ہوتی ہے کا باب کے تحت مذکور ہے: ''وفي الباب عن أبي مليح عن أبيه'' تو ایسا اس لئے ہے بعض صحابہ سے محض ان کا یہ بیٹا ہی روایت کرنے والا ہے دوسرا کوئی نہیں جیسے ابو ملیح جن کے باپ کا نام اسامہ بن عمیر ہذلی بصری ہے ان سے صرف ابو ملیح ہی روایت کرتے ہیں۔
اسی طریقے سے زکاۃ نہ دینے والوں کے بارے میں وعید کا جو باب ہے اس کے تحت مذکور ہے: ''وفي الباب عن قبيصة بن هلب عن أبيه''، تو ان کا بھی یہی معاملہ ہے کہ: ان سے صرف ان کا یہ بیٹا ہی روایت کرنے والا ہے دوسرا کوئی بھی نہیں ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: بعض صحابی کے نام میں اختلاف ہوتاہے تو جو صحابی مراد ہوتے ہیں اس کی صراحت کردیتے ہیں۔ جیسے باب سہم الخیل کے تحت مذکور ہے: ''وفي الباب عن أبي عمرة، عن أبيه فأبو عمرة هذا صحابي أنصاري نجاري يروى عنه ابنه فقط واختلفوا في اسمه'' تو امام ترمذی نے صحابی کے نام کی صراحت کردی اور اس اختلاف کو ذکر کردیا جو ان کے نام کے سلسلہ میں پایا جاتا تھا۔ تاکہ وضاحت ہوجائے کہ کون صحابی اس سے مراد ہیں۔
حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بیٹے کا نام عبد الرحمٰن بتایا ہے اور ابو عمرہ کا نام عمرو بن محصن بتایا ہے۔
٭ اسی طرح بعض صحابی کے والد کے نام یا نسبت وغیرہ میں اختلاف پایا جاتاہے تو اس کو ذکرکرتے ہیں۔ جیسے (باب کان إذا أراد الحاجۃ أبعد فی المذہب) کے تحت لکھتے ہیں: و فی الباب عن یحییٰ بن عبید عن أبیہ، فعبید والد یحییٰ ھذا اختلفوا فیہ) فقال بعضہم: عبید رحی بالراء ... و یقال فی اسم ابیہ دحی بالدال بدل الراء ... و منہم من قال: فی أبیہ صیفی)، و أما فی نسبتہ فقیل الجہضمی و قیل الجہنی) ...۔
امام ترمذی نے صحابی کے والد کے نام میں چونکہ اختلاف تھا اس لئے اس کا ذکر کردیا تاکہ التباس ختم ہوجائے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے میں التباس کا خطرہ تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ: چونکہ صحابی سے زیادہ معروف ان کے بیٹے تھے جن کے ذریعہ صحابی کی شخصیت کا پتہ چلتا تھا اس لئے صحابی کا نام لینے کے بجائے ان کے بیٹے کا نام لیا تاکہ صحابی کی شخصیت زیادہ واضح ہوجائے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: ترجمۃ الباب کے تحت جن حدیثوں کو ذکر کرتے ہیں تو جب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ تو اس صحابی کا ذکر نہیں کرتے ہیں جس کی روایت نقل کی ہے بلکہ دیگر صحابہ کا نام لیتے ہیں جن سے روایتیں اس باب میں آئی ہیں۔
مثال کے طور پر کسی باب کے تحت ابوہریرہؓ کی حدیث روایت کی ہے تو یہ نہیں کہتے: ''وفي الباب عن أبي هريرة'' بلکہ اس کے بجائے مثال کے طور پر یہ کہتے ہیں: ''وفي الباب عن أبي سعيد''۔
٭ البتہ بعض جگہ انہوں نے ایسا کیا کہ اسی صحابی کا نام لیا ہے تو اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ اس صحابی سے اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث بھی اس باب کے تحت مروی ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: ترجمۃ الباب کے تحت جن حدیثوں کو ذکر کرتے ہیں تو جب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس باب میں فلاں صحابی سے حدیث مروی ہے۔ پھر اس صحابی کی حدیث آگے ذکر کرتے ہیں جس کی روایت کی طرف اشارہ ہے۔ جیسے گائے کی زکاۃ کے باب کے تحت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں: '' وفي الباب عن معاذ بن جبل''پھر ان کی حدیث بھی بیان کی۔ اسی طریقے سے صلاۃ عصر سے قبل چار رکعات کے باب کے تحت علی کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: ''وفي الباب عن ابن عمر''۔ پھر ائمہ کے مذاہب بیان کرنے کے بعد ابن عمر کی حدیث بھی بیان کی۔
٭ اسی طریقے سے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں ترجمۃ الباب کے تحت حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: '' وفي الباب عن فلان'' پھر آگے ان کی حدیث بیان کرنے کے بعد پھر کہتے ہیں: '' وفي الباب عن فلان'' جیسا کہ '' باب استكمال الإيمان والزيادة والنقصان''کے تحت عائشہ کی حدیث بیان کی۔ پھر آگے کہتے ہیں: '' وفي الباب عن أبي هريرة وأنس''۔
٭ اسی طریقے سے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کوئی باب بغیر ترجمۃ الباب کے لاتے ہیں پھر اس کے تحت کوئی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: '' وفي الباب عن فلان''۔
پھر اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو حدیث اوپر ذکر کی گئی ہے اسی معنی کی حدیث دوسرے صحابی سے بھی روایت ہوئی ہے۔ جیسے اوائل قدر میں ہے کہ: باب کو بغیر ترجمۃ الباب کے لائے ہیں پھر اس کے تحت ابو ہریرہ کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: '' وفي الباب عن عمرو وجندب''۔
اسی طریقے سے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کسی باب کے تحت کوئی حدیث مختصر بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: '' وفيه قصة أو فيه كلام أكثر من هذا أو نحوه''۔
اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کسی باب کے تحت کوئی ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہے یا ایسی حدیث جس کے مرفوع اورموقوف ہونے میں محدثین کے درمیان اختلاف رہا ہے جبکہ اس باب میں دوسری صحیح و مرفوع حدیث ہوتی ہے لیکن اس کو ذکر نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کی طرف محض اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ در اصل یہ حدیث جو مذکور ہے اس کے بارے میں لوگوں کو متعارف کرانا ہے جبکہ باب اس دوسری حدیث سے ثابت ہے جو کہ صحیح و مرفوع حدیث ہے۔ جس کی طرف محض اشارہ کرنے پر اکتفاء کیاگیا ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کسی باب کے تحت کوئی ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہے اور اس کی تحسین کرتے ہیں جبکہ اس کا ضعف ظاہر ہے۔ جس کا یا تو کوئی راوی مجہول ہے یا وہ ضعیف ہے یا وہ منقطع ہے یا اور دوسری اس میں کوئی علت پائی جاتی ہے۔ تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں جو راوی مجہول ہے اس کا علم انہیں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اس کو حسن قرار دیا۔
ابن الملقن نے شرح المنہاج میں کہا ہے کہ ان لوگوں کے جواب میں جو جنہوں نے زید بن ثابت کی اس حدیث کے امام ترمذی کے حسن قرار دینے پر کہ: انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ: احرام باندھنے کے لئے بالکل ننگے ہوکر غسل کیا۔ اس کے راویوں میں عبد اللہ بن یعقوب مجہول ہے تو امام ترمذی کا اس روایت کو حسن قرار دینا اس بنیاد پر ہے کہ: شاید انہیں اس کے بارے میں علم ہو گیا تھا کہ وہ کون شخص ہے۔
٭ امام ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ایک انصاری صحابی نے کہا: '' إن النبي ﷺ باع حلسا'' اور اس کی سند میں ابو بکر حنفی ہے جو مجہول راوی ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن القطان کہتے ہیں: اس کی سند میں واقع ابو بکر حنفی کی وجہ سے یہ حدیث معلول ہے، میں نہیں جانتا کہ کسی نے ان کی تعدیل کی ہو۔ کیونکہ وہ مجہو ل الحال راوی ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کی تحسین اپنی اس عادت کے بنا پر کی ہے کہ یہ ایک دوسرے طریق سے مروی ہے، اور اس کے شواہد موجود ہیں۔
حافظ سیوطی تدریب الراوی میں کہتے ہیں: جب حدیث ضعیف اسناد سے مروی ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے: وہ مختلف طریقوں سے روایت کی بنا پر حسن قرار پائے۔ بلکہ ایسا اس بنا پر ممکن ہے جب کسی صادق امین راوی کی روایت جو کہ ضعیف ہو اور وہ دوسرے طرق سے مروی ہو اور اس کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ اس نے اس کو حفظ کیا تھا اور اس کے ضبط کرنے میں وہ مختل نہیں ہوا تھا تو ایسی روایت حسن درجہ کی قرار دی جاتی ہے جیساکہ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد حسن قرار دیا ہے جو'' شعبة عن عاصم بن عبيدالله، عن عبدالله بن عامر بن ربيعة، عن أبيه أن امرأة من بني فزارة تزوجت على نعلين...'' ہے۔
hامام ترمذی اس حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: ''وفي الباب عن عمر وأبي هريرة وعائشة وأبي حدرد''۔
اس حدیث کے راویوں میں عاصم سوء حفظ کے سبب ضعیف ہیں۔ اور امام ترمذی نے دوسرے طرق سے مروی ہونے کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ اسی طریقے سے جب کوئی روایت مرسل یا مدلس یا مجہول راوی کے سبب معلول ہو جیساکہ شیخ الاسلام نے اضافہ کیا ہے تو دو طرق سے مروی ہونے کے سبب حسن لذاتہ سے کم درجہ کی ہوتی ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے اور اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگانے کے بعد کہتے ہیں: ''والعمل على هذا عند أهل العلم أو أكثر أهل العلم أو بعض أهل العلم''۔ جیسا کہ ان کی برابر عادت ہے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: آیا اس سے حدیث کا صحیح یا حسن ہونا لازم آتا ہے کہ حدیث کا صحیح یا حسن ہونا اہل علم کے اس پر عمل ہونے سے مشروط ہے؟
اس بارے میں صاحب دراسات اللبیب ساتویں درس میں کہتے ہیں:
امام ترمذی کا اپنی جامع ترمذی کے اندر اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے اور اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگانے کے بعد کہنا: ''والعمل على هذا عند أهل العلم أو أكثر أهل العلم أو بعض أهل العلم وغيره'' جیسا کہ ان کی برابر عادت ہے تو یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے جس کے مطابق وہ کہتے ہیں اور ان کے یہاں ان کا اپنا ایک مفہوم ہے۔ اس سے حدیث کا صحیح یا حسن ہونا لازم نہیں آتا ہے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حدیث صحیح یا حسن ہوتی ہے پھر اس پر حکم لگانے کے بعد کہتے ہیں: ''ولم يأخذ به أهل العلم أو بعض أهل العلم''۔ پس اہل علم کے اس حدیث کے خلاف پر عمل کوواضح کرتے ہیں۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے کے بعد اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگاتے ہوئے کہتے ہیں: ''هذا حديث حسن أو هذا حديث صحيح أو هذا حديث حسن صحيح'' تو تتبع کے بعد جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ: جو حدیث صحیحین میں یا ان میں سے کسی ایک میں آئی ہوئی ہوتی ہے اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں یہی ان کی غالب عادت ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی کر جاتے ہیں۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے کے بعد اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگاتے ہوئے کہتے ہیں: ''هذا حديث حسن غريب أو غريب حسن''۔ تو تتبع کے بعد جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ: جس حدیث میں غرابت ہوتی ہے اور وہ حسن درجہ کی ہوتی ہے لیکن اس میں حسن کا زیادہ غلبہ ہوتا ہے تو اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔ اور جس حدیث میں غرابت ہوتی ہے اور وہ حسن درجہ کی ہوتی ہے لیکن اس میں غرابت کا زیادہ غلبہ ہوتا ہے تو اس حدیث کو غریب حسن کہتے ہیں یہی ان کی غالب عادت ہے۔