کیا سنن ترمذی میں موضوع احادیث پائی جاتی ہیں؟:
جامع ترمذی کا شمار صحاح ستہ میں سے ہے۔ خود امام ترمذی نے اکثر احادیث پر صحت یا ضعف کا حکم لگایاہے، بعض احادیث کی صحت یا ضعف کے بارے میں علماء نے امام ترمذی سے اختلاف کیاہے، حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں سنن ترمذی کی (23یا 29) احا دیث کوموضوع قرار دیا ہے، حافظ سیوطی نے ان احادیث کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ موضوع نہیں ہیں، ''القول الحسن فی الذب عن السنن'' میں لکھتے ہیں:
حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں جن (23) تیئیس حدیثوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ موضوع احادیث جنہیں امام ترمذی نے اس کو جامع ترمذی میں روایت کیا ہے۔ تمہیں اس سے تعجب اور حیرت نہیں ہونی چاہئے اور دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انہوں نے صحیح مسلم کی بعض احادیث کو بھی موضوع قرار دیا ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ احادیث کو ضعیف قرار دینے میں اسی طرح سے متساہل ہیں جیسے امام حاکم احادیث کو صحیح قرار دینے میں متساہل ہیں۔ ان دونوں کا تساہل مشہور و معروف ہے۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں: حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں جو حدیثیں ذکر کی ہیں اورجنہیں موضوع قرار دیا ہے ان میں زیادہ تر موضوع ہی ہیں، اور کچھ روایتیں ایسی ہیں جن کے موضوع قرار دینے پر نقد کیا گیاہے، جن کی تعداد بہت کم ہے۔ نیز یہ کہ غیر موضوع کو موضوع قرار دینے کا نقصان کم ہے بمقابل اس بات کے کہ کسی ضعیف حدیث کو صحیح قرار دیا جائے جیسا کہ امام حاکم سے تساہل ہوا ہے۔ کیونکہ کسی ضعیف حدیث کو جب صحیح قرار دیا جائے تو اس کے بارے میں یہ گمان ہوجاتا ہے کہ یہ صحیح ہے۔
حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں: ان دونوں کتابوں (یعنی الموضوعات لابن الجوزی اور المستدرک للحاکم)پر کی گئی تنقیدوں کا لحاظ ضروری ہے کیونکہ ان کے تساہل کے بارے میں کلام ان دونوں سے استفادہ کو معدوم کردیتا ہے اور اس سے صرف وہی لوگ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو عالم فن ہیں اور کوئی بھی حدیث ایسی نہیں ہے مگر اس کے بارے میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس میں تساہل واقع ہوا ہو۔
حافظ سیوطی تدریب الراوی کے اندر حافظ ابن حجر کا کلام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: میں نے موضوعات ابن الجوزی کا اختصار کیا ہے اور اس کی اسانید پر تعلیق چڑھائی ہے اور جہاں ضرورت پڑی اُس پرکلام کیا۔ اور متون کو ذکر کرکے ابن الجوزی کے کلام کوذکرکیا، اور ان میں سے بہت سارے پر تعاقب بھی کیا ہے۔ اور اس کے بعد ان احادیث کے سلسلہ میں حفاظ حدیث کے کلام کو پیش کیاہے خاص کر حافظ ابن حجر کے کلام کو جو ان کی تصانیف اور امالی میں پائے جاتے ہیں، پھرتعاقب والی احادیث کو ایک مستقل تصنیف میں جمع کردیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے مسند احمد میں آئی (24) چوبیس موضوع احادیث کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے اور جس کا نام رکھا ہے '' القول المسدد فی الذب عن المسند'' اور اس میں ایک ایک حدیث پرالگ الگ تنقید کی ہے۔ جن میں سے ایک حدیث صحیح مسلم میں بھی آئی ہوئی ہے۔ جسے امام مسلم نے درج ذیل سند سے روایت کی ہے: أبوعامر العقدي، عن أفلح بن سعيد، عن عبدالله بن رافع، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: "إن طالت بك مدة أوشك أن ترى قوما يغدون في سخط الله ويروحون في لعنته في أيديهم مثل أذناب البقر".
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: میں نے صحیحین کی کوئی بھی ایسی حدیث اس کے علاوہ نہیں پائی ہے جو کہ موضوعات کی کتابوں میں پائی جاتی ہو اور اس پر موضوع حدیث ہونے کا حکم لگایا گیا ہو، موضوعات ابن الجوزی میں اس حدیث کا آنا بہت بڑی غفلت کا نتیجہ ہے۔ پھر اس کے بعد آپ نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور اس کے شواہد ذکر کئے ہیں۔
حافظ سیوطی کہتے ہیں: اس کتاب پر میں نے مسند احمد کی ان احادیث کو جن کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ موضوع احادیث اورجن کی تعداد چودہ ہے ان کے ذیل میں لکھ کر اُس پر تعلیق چڑھائی ہے۔ پھر میں نے سنن ابوداود اوسنن نسائی میں وارد موضوع احادیث پر ایک کتاب تالیف کی جس کانام ''القول الحسن فی الذب عن السنن'' رکھا۔ جس میں ایک سو بیس سے زیادہ احادیث مذکور ہیں جن پر ابن الجوزی نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے جبکہ وہ موضوع نہیں ہیں۔ ان میں سے چار حدیثیں سنن ابوداود میں ہیں جن میں سے ایک حدیث صلاۃ التسبیح سے متعلق ہے۔ ان میں سے تیرہ حدیثیں جامع ترمذی میں ہیں، اور سنن نسائی میں ایک حدیث ہے۔ اور ان میں سے سولہ حدیثیں سنن ابن ماجہ میں ہیں، اور ان میں سے ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے جو حماد بن شاکر کی روایت ہے اور وہ عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: كيف بك يا ابن عمر إذا عمرت بين قوم يخبئون رزق سنتهم.
یہ حدیث دیلمی نے مسند فردوس میں روایت کی ہے اور اس کو بخاری کی طرف منسوب کردیا ہے۔ میں نے امام عراقی کی خود سے لکھی کتاب میں دیکھا کہ وہ مشہور روایتوں میں سے نہیں ہے اور مزی نے کہا کہ وہ حماد بن شاکر کی روایت میں ہے، اوریہ صحیحین کی دوسری روایت ہے جو صحیحین میں وارد ہے اور اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔
اور ان میں سے بعض احادیث ایسی ہیں جو جامع صحیح بخاری کے علاوہ امام بخاری کی دیگر تالیفات میں آئی ہوئی ہیں نیز ان کتابوں میں آئی ہیں جن کو صحیح کتاب کہا گیا ہے۔
حافظ سیوطی کہتے ہیں: ہم نے ایک ایک حدیث پر الگ الگ کلام کیا ہے پس یہ ایک اہم کتاب ہے۔
علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں: جامع ترمذی میں ضعیف حدیثیں پائی جاتی ہیں لیکن امام ترمذی نے ان کے ضعف کو واضح کردیا ہے اور ان کے لانے کی علت بھی بتادی ہے۔ جہاں تک موضوع حدیث پائے جانے کا سوال ہے تو ہرگز ہرگز اس میں موضوع حدیث نہیں پائی جاتی ہے۔
علامہ البانی نے سنن اربعہ کو الگ الگ ضعیف اور صحیح کے نام سے شائع فرمایاہے، ضعیف سنن ترمذی کے مقدمہ میں آپ نے امام ترمذی اور ان کے سنن سے متعلق بڑی مفید باتیں لکھیں ہیں، ذیل میں ہم ان کو مختصرا بیان کرتے ہیں تاکہ تفصیلی طور پر امام ترمذی کی اس کتاب میں وارد احادیث کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل ہوجائیں، علامہ البانی فرماتے ہیں: سنن ترمذی کے مطالعہ کرنے والے علماء کو اس بات کا علم ہے کہ امام ترمذی کا اسلوب اور طریقہ کار اس کتاب میں بقیہ کتب ستہ کے اسلوب سے بہت زیادہ مختلف ہے، اس طورپر کہ امام ترمذی اکثر احادیث کے صحیح، حسن، یا ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اور یہ آپ کی سنن کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، اگر ناقدین علمائے حدیث کے نزدیک حدیث کی تصحیح کے مسئلے میں آپ کا تساہل نہ ہوتا تو یہ بڑی اچھی بات تھی، اس تساہل پر میں نے اکثر وبیشتر اپنی کتابوں میں نشاندہی کردی ہے، کیونکہ میں امام ترمذی کی کسی حکم میں تقلید نہیں کرتا، بلکہ اپنی تحقیق اور تنقید سے میں نے ان احادیث پر حکم لگایا ہے، اس لیے اللہ کے فضل سے میں نے امام ترمذی کی اکثر ان احادیث کو جن پر آپ نے ضعف کا حکم لگایا ہے، یا جن میں ارسال اور اضطراب وغیرہ اسباب ضعف حدیث میں سے کسی سبب اور علت کو بیان کیا ہے تو میں نے ان حدیثوں کو وہاں سے سے نکال کر صحیح یا حسن کے صف میں لاکھڑا کیا ہے، جیسے بطور مثال فقط کتاب الطہارۃ میں یہ احادیث ملاحظہ ہوں: (14، 17، 55، 86، 113، 118، 126، 135)دوسری جگہ اس کی اور بہت ساری مثالیں ملیں گی، اس طرح سے الحمدللہ سنن ترمذی میں ضعیف حدیثوں کی تعدادگھٹ گئی، فالحمدللہ، رہ گئیں وہ احادیث جن کی امام ترمذی نے فقط تحسین کی ہے اور علمی نقد ونظر اور متابعت اور شواہد کے تتبع اور استقراء سے جن کو میں نے صحیح قرار دیاہے، وہ بہت کافی ہیں، اور قارئین اکثر ابواب وکتب میں اس کا ان شاء اللہ ملاحظہ کریں گے۔
مؤلف رحمہ اللہ نے اس کے برعکس کچھ احادیث کو قوی قرار دیا، لیکن میری تحقیق میں ان کی اسانید ضعیف ہیں، جن کا ضعف ختم کرنے کے لیے کوئی اور روایت موجود نہیں ہے، بلکہ بعض احادیث تو موضوع ہیں، صرف کتاب الطہارۃاور صلاۃ کی درج ذیل نمبرات کی احادیث کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (123، 145، 146، 115، 171، (172 یہ حدیث موضوع ہے)-179، 184، 233، 244، 251، 268، 311، 320، 357، 366، 380، 396، 411، 480، 488، 494، 534، 556، 567، 583، 616)۔ (ضعیف سنن الترمذی 9-10)۔
البانی صاحب کے نزدیک سنن ترمذی میں (18) حدیثیں موضوع ہیں، جن کے نمبرات یہ ہیں: (172، 801، 1859، 2494، 2505، 2648، 2681، 2699، 2714، 2762، 2887، 2888، 3087، 3570، 3684، 3709، 3923، 3928، 3939)، کتاب الاطعمۃ کی حدیث نمبر (1823)بھی موضوع ہے، جس کو ابن الجوزی نے اپنی الموضوعات میں ذکر کیا ہے، اور البانی صاحب نے الضعیفۃ (112) میں اسے موضوع کہا ہے، لیکن واضح رہے کہ ضعیف سنن الترمذی اور مشہور حسن کے سنن الترمذی کے نسخے میں اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگا ہے۔
ذیل میں ان احادیث اور ان کے رواۃ کے بارے میں امام ترمذی کی آراء کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ان احادیث کے بارے میں امام ترمذی کا نقطہ نظر معلوم ہوجائے:
1- (172) اس حدیث کی سندمیں عبداللہ بن عمرعمری ہیں، ترمذی کہتے ہیں کہ یہ اہل حدیث کے یہاں قوی راوی نہیں ہیں، اور اس حدیث میں اضطراب ہے، یحیی بن سعید نے عمری کے حفظ کے بارے میں کلام کیاہے۔
2- (801) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اس کی سند قوی سند کی طرح نہیں ہے، اس کو ہم سعد بن طریف ہی کے طریق سے جانتے ہیں، جن کی تضعیف کی گئی ہے۔
3- (1859) ترمذی کہتے ہیں: اس طریق سے یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے۔
4- (2494) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، بعض نسخوں میں هذا حديث حسن غريب آیا ہے، لیکن تحفۃ الأشراف میں صرف (غریب)کا لفظ ہے، اوریہی زیادہ قرین قیاس ہے۔
5- (2505) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے، خالد بن معدان نے معاذ بن جبل کو نہیں پایا۔
6- (2648) ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند ضعیف ہے، راوی ابوداود کا نام نفیع الاعمی ہے، جس کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے، اور ہمیں عبداللہ بن سخبرہ اور ان کے باپ کی زیادہ روایات کا علم نہیں ہے (سند یہ ہے: أبوداود عن عبدالله بن سخبرة عن سخبرة)۔
7- (2681) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اور یہ ہمیں صرف ولید بن مسلم کی حدیث سے معلوم ہے۔
8- (2699م) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اور ہمیں صرف اسی طریق (عن عبسة بن عبدالرحمن عن محمد بن زاذان عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبدالله) سے اس حدیث کی روایت کا علم ہے، میں نے بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنبسہ بن عبدالرحمن حدیث میں ضعیف اور کمزور ہیں، اور محمد بن زاذان منکر الحدیث ہیں۔
9- (2714)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اور اسے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، یہ ضعیف سند ہے، عنبسہ بن عبدالرحمن اور محمد بن زاذان دونوں کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے۔
10- (2762)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف)ہے، میں نے بخاری کو یہ کہتے سنا کہ عمربن ہارون مقارب الحدیث ہیں، مجھے اُن کی کوئی ایسی حدیث کا علم نہیں جس کی کوئی اصل نہ ہو، یا یہ کہا کہ جس میں وہ منفرد ہوں، ہاں صرف اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنی داڑھی کے بال طول وعرض سے لیتے تھے، ہمیں یہ حدیث صرف عمربن ہارون کے طریق سے معلوم ہے، اور میں نے دیکھا کہ بخاری عمر کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے، میں نے قتیبہ کو یہ کہتے سنا کہ عمربن ہارون اہل حدیث تھے، اور کہتے تھے کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے۔
11- (2887) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف)ہے، اور ہمیں یہ صرف حمید بن عبدالرحمن کے طریق سے معلوم ہے، اور بصرہ میں قتادہ سے صرف اسی طریق سے معروف ہے، اور ابومحمد ہارون مجہول شیخ ہیں۔
12- (2888)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف)ہے، اور ہمیں یہ صرف اسی طریق سے معلوم ہے، عمر بن ابی خثعم کی تضعیف کی گئی ہے، بخاری کہتے ہیں کہ عمر بن خثعم منکر الحدیث ہیں۔
13- (3570) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف ولید بن مسلم کی حدیث سے معلوم ہے، بعض نسخوں میں ''حسن غریب'' کا لفظ آیا ہے، لیکن تحفۃ الأشراف میں صرف (غریب)کا لفظ ہے (تحفۃ الأشراف: 5927)۔
14- (3684)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف اسی طریق سے معلوم ہے، اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔
15- (3709)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف اسی طریق سے معلوم ہے، محمد بن زیاد یہ میمون بن مہران کے شاگرد ہیں، اور حدیث میں بہت کمزور ہیں۔
16- (3923)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف فضل بن موسی کے طریق سے معلوم ہے، ابوعامر اس روایت میں منفرد ہیں۔
17- (3928) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اسے ہم صرف بسند حصین بن عمر احمسی عن مخارق جانتے ہیں، اور حصین اہل حدیث کے یہاں بہت مضبوط راوی نہیں ہیں۔
18- (3939)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اسے ہم عبدالرزاق کی حدیث سے جانتے ہیں، مینا سے منکر احادیث روایت کی گئی ہیں۔
1823- حدیث جابر وانس: اللهم أهلك الجراد...البانی کے صحیح الترمذی اور ضعیف الترمذی کے مکتب التربیۃ کے نسخے سے یہ حدیث مع باب ساقط ہے، اس لیے اس پر البانی صاحب کا کوئی حکم بھی نہیں ہے، لیکن یہ حدیث ابن ماجہ میں ہے، اور ابن ماجہ (3221) کی روایت سے البانی نے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ابن الجوزی سے اس کے وضع ہونے کی بات نقل کرنے کے بعد سیوطی کے تعاقب کو رد کردیا ہے (ضعیف ابن ماجہ، و الضعیفۃ 112، اگرالبانی کے سامنے ترمذی کایہ باب اور یہ حدیث ہوتی تو یقینی طور پر اس میں بھی اس حدیث کے موضوع ہونے کا حکم لگاتے، واضح رہے کہ یہ حدیث ترمذی کے قلمی نسخوں میں نہیں پائی جاتی اور مزی نے بھی تحفۃ الأشراف میں اس کی نسبت ترمذی کی طرف نہیں کی ہے، ایسے ہی تہذیب الکمال میں زیادبن عبداللہ بن علاثہ کے ترجمہ میں مزی کہتے ہیں: انہوں نے ابن ماجہ سے ایک حدیث روایت کی ہے، اور ان پر ترمذی کے راوی ہونے کا نشان نہیں لگایا ہے، امام ترمذی اس حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہتے ہیں، اور موسیٰ بن محمد بن ابراہیم التیمی راوی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس پر کلام کیا گیا ہے، اور وہ غرائب اور مناکیر کی بکثرت روایت کرنے والا ہے۔
3723نمبر کی حدیث بروایت علی رضی اللہ عنہ: شأنا دار الحكمة وعلي بابها کوابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع قرار دیا ہے، اور ترمذی نے اس پر غریب اور منکر کا حکم لگایاہے، اور کہاہے کہ شریک القاضی کے علاوہ کسی ثقہ راوی سے ہمیں اس حدیث کی روایت کا علم نہیں ہے۔
امام ترمذی کے مذکورہ بالا احادیث پراحکام کی تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ سبھی احادیث پر آپ کا کلام موجود ہے، اور اکثر احادیث پر غرابت کا حکم ہے، جو علماء کے نزدیک امام ترمذی کے یہاں ضعیف کے حکم میں ہے۔
حافظ ابن الجوزی نے سنن ترمذی کی جن احادیث کو اپنی کتاب الموضوعات میں داخل کیا ہے ان میں سے (6) احادیث سنن ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں، ان ساری احادیث کوبحث وتحقیق کا موضوع ڈاکٹر عمر فلاتہ نے بنایاہے، جس کے لیے ملاحظہ ہو: الوضع فی الحدیث 2/193-372)
۔