اللہ رب العزت نے اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ فرمایاہے، اور مادی اسباب کی دنیا میں گروہ محدثین کواس بات کی توفیق دی کہ وہ کتاب وسنت کی محبت سے سرشار ہوکر اُس کی ممکن خدمت کریں، چنانچہ طلب علم سے لے کر تدوین حدیث کے مختلف مراحل تک کتاب وسنت کو صحیح سندوں کے ساتھ اور صحیح معانی ومفاہیم کو محفوظ رکھنے کی جد وجہد میں اس گروہ کو نمایاں مقام حاصل ہے، اور آیت کریمہ: إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون کی عملی تفسیر ائمہ اسلام کی یہی جد وجہد ہے، جس کے نتیجے میں دینی نصوص صحیح سندوں اور سلف صالحین کی تعبیرات کے ساتھ محفوظ ہیں، امام ترمذی سلسلہ محدثین کی اہم کڑی ہیں، جنہوں نے حدیث کی حفاظت وتدوین کے ساتھ ساتھ جرح وتعدیل رواۃ پر بھی بڑا سرمایہ چھوڑا اور فہم حدیث کے سلسلہ میں بھی آپ کی کوششوں سے مسلک سلف ہم تک پہنچا، صحیح اسلامی عقائد کو بھی آپ نے امت تک پہنچا یا، اسی وجہ سے سنن الترمذی کی افادیت کے ایک سے زیادہ پہلو کی ائمہ نے صراحت کی ہے۔
امام ترمذی عقائدکے باب میں بھی امام ہدیٰ تھے، اور اپنے شیوخ کے نقش قدم پر سنن ترمذی میں اسماء وصفات کے بارے میں اپنے پیش رو ائمہ کے اقوال ومذاہب کو جگہ دیتے ہیں، چنانچہ کتاب صفۃ الجنۃ میں باب ما جاء فی خلود اہل الجنۃ واہل النار کے تحت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت باری تعالیٰ سے متعلق حدیث روایت کرکے فرماتے ہیں: رویت باری سے متعلق نبی اکرم ﷺ سے بہت ساری احادیث مروی ہیں، جس میں یہ ہے کہ لوگ اپنے رب کو دیکھیں گے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قدم کا ذکرہے، اور اس طرح کے دوسرے مسائل کا ذکرہے، اس بارے میں اہل علم ائمہ جیسے سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، سفیان بن عیینہ، وکیع وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ ان حضرات نے صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث کی روایت کی، پھر فرمایا: یہ احادیث روایت کی جائیں گی اور ان پر ایمان بھی لا یا جائے گا، اور ان صفات کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا کہ ان کی کیفیت اور حقیقت کیاہے، یہ اہل حدیث کا اختیار کردہ مذہب ہے کہ احادیث جیسی آئی ہیں، ان کو ویسے ہی روایت کیا جائے گا اور ان پر ایمان لایا جائے گا، اور ان کی تفسیر نہ بیان کی جائے گی، اور نہ اس میں اپنے وہم وگمان سے بات کی جائے گی اور نہ یہی کہا جائے گا کہ ان کی کیفیت کیا ہے، ان صفات کے بارے میں اہل علم کا یہی مختار مذہب ہے (سنن الترمذی 4/691)۔
تقریباً اسی طرح کی بات امام موصوف نے کتاب التفسیر کے باب تفسیر سورۃ المائدۃ میں لکھی ہے، حدیث یہ ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَمِينُ الرَّحْمَنِ مَلأَى سَحَّاءُ لاَ يُغِيضُهَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ قَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الأُخْرَى الْمِيزَانُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَتَفْسِيرُ هَذِهِ الآيَةِ: { وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ } وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَتْهُ الأَئِمَّةُ نُؤْمِنُ بِهِ كَمَا جَاءَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفَسَّرَ أَوْ يُتَوَهَّمَ هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الأَئِمَّةِ مِنْهِمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ تُرْوَى هَذِهِ الأَشْيَاءُ وَيُؤْمَنُ بِهَا، وَلاَيُقَالُ كَيْفَ.
(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتاہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش وعطاکرتارہتاہے، رات ودن لُٹا نے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیںہوتی، آپ نے فرمایا: ''کیاتم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیداکیے ہیں کتنا خرچ کرچکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کرچکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جوکچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیںہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتاہے اور جسے چاہتاہے کم)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ پھرفرما تے ہیں: یہ حدیث اس آیت { وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ } اوریہودیوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اوران کے اس قول کی وجہ سے ان پرلعنت کی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوںہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جس طرح چاہتاہے خرچ کرتاہے (المائدہ: 64)۔ کی تفسیرہے، اس حدیث کے بارے میں ائمہ دین کی روایت یہ ہے کہ ان پر ویسے ہی ایمان لائیں گے جیسے کہ ان کا ذکر آیا ہے، ان کی نہ کوئی تفسیر کی جائے گی اور نہ ہی کسی طرح کا وہم وقیاس لڑایاجائے گا۔ ایسا ہی بہت سے ائمہ کرام: سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، ابن مبارک وغیرہم نے کہا ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہی بیان کی جائیں گی جیسی بیان کی گئی ہیں اور ان پر ایمان رکھاجائے گا لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ (سنن الترمذی: 3045)، یہ حدیث متفق علیہ ہے، ملاحظہ ہو: خ/تفسیر ھود 2 (4684)، والتوحید 19 (7411)، و 22 (7419)، م/الزکاۃ 11 (993)۔
امام ترمذی نے اس حدیث میں بھی ائمہ سلف کا صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اجماعی عقیدہ نقل کیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن اسماء وصفات کا ذکرکیاہے ا س کی نہ تو بے جاتاویل کی جائے گی اورنہ ہی کوئی غلط تفسیر، یعنی یہ نہیں کہاجائے گا کہ اس کا ہاتھ ایساایساہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کاہاتھ بھی ہے، اس کی کیفیت بیان کئے بغیراس پر ایمان لاناضروری ہے۔
ایسے ہی کتاب صفۃ القیامۃ کے باب فی القیامہ میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث: ما منكم من رجل إلا سيكلمه ربه يوم القيامة وليس بينه وبينه ترجمان... إلخ. (تم میں سے ہرآدمی سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات کرے گا، اور اس کے اوراللہ کے درمیان کوئی مترجم نہیں ہوگا)۔ اس حدیث میں اللہ رب العزت کی صفت کلام کا ذکر ہے، اس کی روایت کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں کہ ہم سے ابوالسائب نے بیان کیا کہ وکیع نے اعمش سے اس حدیث کی روایت کے بعد فرمایا: یہاں پر خراسان والوں میں سے جو موجود ہو اس کو اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے خراسان میں اس حدیث کو بیان کرنا چاہئے اس لیے کہ جہمیہ صفت کلام باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں (4/611)۔
صحیح سنت پرعمل کرنے، اس کے مطابق فتویٰ دینے، اُس کی نشر و اشاعت کرنے، اور اُس کے مخالف مسلک کے ردوابطال میں یہ مثال بھی بے جا نہ ہوگی کہ امام ترمذی نے یہ حدیث ذکر کی کہ نبی اکرمﷺ نے حج میں ہدی (قربانی) کے جانور کا اشعارکیا، یعنی ان کو زخمی کرکے یہ ظاہر کیا کہ یہ ہدی (قربانی کا جانور) ہے، اپنی سند سے اس حدیث کو امام وکیع سے روایت کرنے کے بعد اُن کا یہ قو ل نقل کیا: اس مسئلہ میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو اس لیے کہ اشعارسنت ہے، اور اُن کا قول بدعت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابوالسائب کو یہ کہتے سناکہ ہم وکیع کے پاس تھے تو اُنہوں نے ایک آدمی سے جو رائے میں پڑتا تھا اس سے کہا: رسول اللہﷺ نے ہدی کے جانور کا اشعار کیا، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے، تو اس آدمی نے کہا: ابراہیم نخعی سے مروی قول ہے کہ اشعار مثلہ ہے، تو میں نے دیکھا کہ امام وکیع سخت غصہ ہوئے، اور کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں، تم کتنا زیادہ اس بات کے حقدار ہو کہ تم کو جیل میں بندکردیاجائے اور اس وقت تک تم کو وہاں سے نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آجاؤ (سنن الترمذی 3/241)۔
اسی طرح سے کتاب النکاح میں امام ترمذی نے باب ماجاء في المحل والمحلل له میں اس موضوع پر علی، اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے دوحدیثیں روایت کیں کہ رسول اکرم ﷺنے حلالہ کرنے اور حلالہ کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے، اور ذکر کیا کہ صحابہ اور فقہائے تابعین اور دوسرے علمائے دین کا اس حدیث پر عمل رہاہے، پھر کہا: میں نے جارود بن معاذ کو سنا کہ وکیع بھی یہی فتویٰ دیتے تھے، اور وکیع نے کہا: اس باب سے اہل رائے کے قول کو رد کردینا چاہئے، اور وکیع سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلو م ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے (1119، 1120)، اس مثال میں واضح طور پر امام ترمذی نے جمہور ائمہ حدیث وائمہ فقہ کے مقابلے میں حدیث کے مخالف اہل رائے کا حلالہ کے بارے میں فتویٰ نقل کیا، اور اس پروکیع اور سفیان ثوری کے قول کے ذریعے واضح طور پر تردید کی، اور یہ معلوم ہے کہ اصحاب رائے سے مرادامام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح حلالہ صحیح ہے گوحلال کرنے کی ہی نیت سے ہو۔ ان کی رائے کوچھوڑدینااس لیے مناسب ہے کہ ان کا یہ قول حدیث کے مخالف ہے۔
شروع ہی سے عقائد کے باب میں انحراف کی روش رکھنے والوں کی کج فکری اور اعتقادی گمراہیوں پر نقد ونظر ائمہ دین کے یہاں بہت معروف ومشہور بات ہے، بلکہ راہ اعتدال سے ہٹ جانے والے حضرات پر تنقید سلف صالحین کا شعار اور منہج رہا ہے، بالخصوص محدثین عظام نے یہ کام بڑی ذمہ داری سے انجام دیا، گمراہ فرقوں اور اُن کے ائمہ اور ان کے مقالات واعتقادات پر کھل کر تنقید کی، سلفی عقائد واصول اور اتباع سنت کے مضامین کو خوب اچھی طرح سے بیان کیا، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ وغیرہ، گمراہ فرقوں کے خلاف ائمہ حدیث کے مقدس گروہ نے شروع ہی سے جنگ چھیڑی، معتزلہ اور جہمیہ کے رد کے نام سے مستقل کتابیں لکھیں اور عقائدکی کتابوں میں ان گمراہ عقائد پر کھل کرتنقید کی، امام احمد بن حنبل تو مسئلہ خلق قرآن کے خلاف فتوے پر ڈٹے رہنے کی بناپر امام اہل سنت والجماعت کے لقب سے مشہور ہوئے، ان کے شاگرد رشید امام بخاری نے خلق أفعال العباد نامی مستقل رسالہ لکھا، اور صحیح بخاری میں کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ وغیرہ وغیرہ کتب میں اتباع سنت اور عقیدہ سلف کی خوب خوب وضاحت کی، امام احمد کے تلامذہ میں امام ابوداود نے اپنی سنن میں کتاب السنہ کے نام سے یہ خدمت انجام دی، امام ترمذی نے کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب القدراورکتاب صفۃ القیامۃ وغیرہ میں ان مسائل پر روشنی ڈالی، اگر ائمہ حدیث کی عقائد سلف کی شرح ووضاحت اور منحرفین کے رد وابطال سے متعلق کتب ورسائل کی محض فہرست ذکر کی جائے تو یہ مقدمہ طویل ہوجائے گا، میں نے امام وکیع بن الجراح کی کتاب الزہد کی تحقیق میں ائمہ دین کی ان کتابوں کا تذکرہ کیاہے، اس باب میں علامہ عبدالسلام مبارک پوری کی کتاب سیرۃ البخاری کے ساتویں باب عقائد اور علم کلام کا مطالعہ مفید ہوگا۔
سلف صالحین کتاب وسنت کے صحیح دلائل کی روشنی میں عقیدہ کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو سمجھتے، اور اس پر ایمان رکھتے، اس کی دعوت دیتے تھے، اور اس کے خلاف ہر رائے اور عقیدے کا رد وابطال کرتے تھے، اور فلاسفہ اور متکلمین کی موشگافیوں کو سخت ناپسندکرتے تھے، اس سلسلے میں امام مالک کے اقوال کافی مشہور ہیں، جن میں سے آپ کا یہ قول عقیدہ سلف کی نمائندگی واضح طور پر کرتا ہے: الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.یعنی اللہ رب العزت نے قرآن میں جو اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے، تو استواء کا معنی ومفہوم معلوم ومشہور بات ہے، لیکن یہ استواء کیسے ہوگا، اس کی کیفیت کا علم نہیں ہے، اور اس پر ایمان لانا واجب اورفرض ہے، اور اس سلسلے میں سوال وجواب کرنا بدعت ہے۔ امام مالک نے یہ بات اس وقت کہی جب ایک آدمی نے آپ سے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا، اسی طرح سے امام بخاری کو خلق قرآن کے مسئلہ پر نیساپور میں جب کچھ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: القرآن كلام الله غير مخلوق وأفعال العباد مخلوقة والامتحان بدعة. یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلو ق نہیں ہے، اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں، یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیاہے، اور اس مسئلے پر کسی کو امتحان میں ڈالنا اور اس سے پوچھ گچھ کرنا بدعت ہے۔ (مقدمۃ فتح الباری: 490)۔
سلف کا منہج عقائد کے بارے میں یہ تھا کہ وہ علم کلام کے مسائل میں زیادہ غور وخوض کو سخت ناپسندکرتے تھے، اور ان مسائل میں سوال جواب کو بدعت کہتے تھے، امام احمد بن حنبل اس باب میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، چنانچہ خلق قرآن کے مسئلے میں کتاب وسنت کے علاوہ اور کسی بات کے سننے کے قائل نہ تھے، احادیث رسول سے اس مسلک کی تقویت ہوتی ہے، چنانچہ خود امام ترمذی نے كِتَاب الْقَدَرِ، بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ: 2133 میں نیز امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: " أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تَتَنَازَعُوا فِيهِ ".
(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ کررہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کاچہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگاگویاآپ کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑدئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: '' کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یامیں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بناکربھیجاگیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتاہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو)۔
تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء وقدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا وسزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث ومباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہوگیا کہ سلف صالحین کے نزدیک باطل عقائد کا رد وابطال کتاب وسنت کے دلائل اور سلف کے اقوال سے ہوتا ہے، اور یہی صحیح علم کلام ہے، صحابہ کرام کے زمانے میں خوارج، قدریہ اور روافض جیسے فرقوں کا فتنہ موجودتھا، خود صحابہ کرام نے تمام مسائل پر کتاب وسنت کی روشنی میں کلام کیا، اور محدثین نے اسی اسلوب کو آگے بڑھا کر ہرطرح کے منحرف فرقو ں اور ان کے آراء واقوال کا رد وابطال کیا، ساتھ ہی غیر سلفی منہج وفکر پر مبنی علم کلام اور اس سے تعلق رکھنے والوں سے خود دور رہنے اوردوسروں کو ان سے دوررہنے کی تلقین اور وصیت فرمائی تاکہ نہ خود ان کے میل جول سے متاثر ہوں اور نہ ہی وہ اس تعلق کے ذریعے افراد امت کو گمراہ کر سکیں۔