امام نسائی کثیر التالیف مؤلف تھے، بعض کتابیں ائمہ کے یہاں مستقل طورپرمروی ہیں، اور ان میں کی بعض کتابیں سنن کبریٰ یا صغری کا جزء ہیں، ہماری اس فہرست میں کتابوں کی تعداد (34) ہے، جن میں سے کئی کتابیں سنن کا جزء ہیں، بعض مطبوع ہیں، اور بعض مفقود، اور بعض کتابوں کے قلمی نسخے پائے جاتے ہیں، جو غیر مطبوع ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے:
سب سے پہلے مطبوع کتابوں کا تذکرہ:
1- (1) السنن الکبریٰ (بروایت ابن الاحمروابن سیار وغیرہما): سب سے پہلے اس کتاب کی اشاعت مولانا عبدالصمد شرف الدین الکتبی کی کوششوں سے شروع ہوئی، اور الدار القیمۃ، بمبئی سے اس کی پہلی جلد شائع ہوئی، جس میں (64) صفحے کا مقدمہ ہے، اور کتا ب الطہارۃ کے (240) صفحے، لیکن تیسری جلد کی اشاعت کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، پھریہ کتاب ڈاکٹر عبدالغفار بنداری اور سید کسروی حسن کی تحقیق سے دار الکتب العلمیۃ نے شائع کی، لیکن یہ اشاعت غیرمعیاری تھی، ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی نگرانی میں مؤسسۃ الرسالۃ سے اس کا محقق نسخہ (12) جلدوں میں شائع ہوا، ہے آخری دو جلدیں فہارس کی ہیں، اس ایڈیشن کے مطابق سنن کبریٰ میں (11949) احادیث ہیں، اور یہ طباعت ابن الاحمر اور محمد بن قاسم بن سیار قرطبی دونوں کی روایت پرمشتمل ہے۔ اس ایڈیشن میں سنن صغریٰ کے ساتھ تحفۃ الاشراف للمزی اور النکت الظراف علی تحفۃ الأشراف لابن حجر کے حوالوں کو بھی دے دیا گیا ہے، اور آخرمیں چارکتابیں تحفۃ الأشراف سے نکال کر اس ایڈیشن میں شامل کی گئی ہیں، یعنی کتاب الشروط، کتاب الرقاق، کتاب المواعظ اور کتاب الملائکۃ یہ چاروں کتابیں سنن کبریٰ کے موجود قلمی نسخوں میں نہیں تھیں، ساتھ ہی کتاب کے نسخوں میں موجود بعض احادیث کا ذکر حافظ مزی کے یہاں نہیں ہے، ہوسکتاہے کہ ان کے نسخے سے یہ احادیث ساقط ہوگئیں ہوں، لیکن اس محقق نسخے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے، اور اس نسخے میں اکثراحادیث تحفۃ الاشراف سے بڑھائی گئیں ہیں، جو ابن حیویہ کے نسخے میں تھیں جس پر حافظ مزی کا اعتماد تھا، ساتھ ہی بعض ایسی روایات سے بھی ماخوذ ہیں جو ابن حیویہ کی روایت کے باہر ہیں۔
2- (2) السنن الصغری: امام صاحب کی جملہ تصانیف میں سب سے مشہورسنن صغریٰ ہے، اس کو المجتبیٰ یا المجتنی بھی کہتے ہیں، اصحاب شروح وحواشی جب کبھی ''أخرجہ النسائی'' کہتے ہیں تو عموماً اس سے سنن صغریٰ ہی مراد لیتے ہیں، امام صاحب سنن کبریٰ کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو امیر رملہ نے پوچھا: کیا آپ کی یہ تصنیف تمام ترصحیح ہے، توآپ نے فرمایا: نہیں، اس میں صحیح اور حسن دونوں قسمیں موجود ہیں، اس پر امیر نے عرض کیا کہ ان احادیث میں جو صحت کے اعلیٰ درجے تک پہنچتی ہیں ان کو علاحدہ ایک مجموعہ کی شکل میں میرے لیے منتخب فرمادیجئے تو آپ نے المجتبی جمع کی (زہر الربی، کشف الظنون 2/36، الحطۃ 254، قواعد التحدیث 247، سیرۃ البخاری 2/744)
بعض کتابیں سنن میں داخل ہیں، اور الگ سے بھی ان کا ذکر آتاہے:
3- (1) عشرۃ النساء: (فتح الباری 8/455)، معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری (847ج)، سنن صغریٰ میں ''کتاب عشرۃ النساء '' بلاد عربیہ کے نسخوں میں '' 36- کتاب المزارعۃ '' کے بعد ہے، اور عام ہندوستانی نسخوں میں (26-کتاب النکاح '' کے بعد ہے، اور اسی کو مولانا عطاء اللہ حنیف نے التعلیقات السلفیہ میں اختیار کیا ہے، اور ہمارے اس نسخے میں بھی اس کا مقام کتاب النکاح کے بعد ہے، اور یہ سنن کبریٰ میں (63) کی کتاب ہے، ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ، ط، الرسالۃ 8/149)۔
4- (2) عمل الیوم واللیلۃ: (مطبوع بتحقیق ڈاکٹر فاروق حمادہ، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت) یہ مستقل کتاب ہے، مصنف سے اس کی روایت بھی مستقل موجودہے، ابوالحسن احمد بن محمد بن ابی التمام نے اس کی روایت نسائی سے کی، اور ان سے ابومحمدأصیلی نے (353ھ) میں روایت کی (فہرست ابن خیر 113)، اسی طرح سے ابوالحسن بن حیویہ نے اسے مستقلاً روایت کی ہے، ابن الأحمر اور ابن سیار نے اس کو سنن کبریٰ میں شامل کیاہے (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ کتاب نمبر 53) (9/5/اورحدیث نمبر 8527سے 8835 تک)۔ اور دوسرے رواۃ نے اس کتاب کو ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے روایت کیا (السیر 14/133، معجم أصحاب الصدفی لابن الأبار 328)۔ عمل الیوم واللیلۃ اور ایسے ہی کتاب خصائص علی کے اطراف حدیث ایسے ہی اس کے رواۃ کا تذکرہ مؤلفین نے مستقلاً کیاہے، نیز ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب 1/6)۔ بعد کے مؤلفین بھی عمل الیوم واللیلۃ کو ایک الگ اور مستقل کتاب کی حیثیث سے ذکر کرتے رہے ہیں۔
5- (3) تفسیرالقرآن الکریم: ا س کتاب کو ابن خیر نے اپنی تفسیری مرویات میں ذکر کیاہے، اور مصنف سے حمزہ کنانی کے طریق سے روایت کی ہے (فہرست ابن خیرصفحہ 58)، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس سے استفادہ کیا: 3/451، 6/439، 11/ 479، 13/ 414، 476)، معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری (325)، یہ بتحقیق سید حلیمی اور صبری الشافعی، مکتبۃ السنۃ، قاہرۃ سے دوجلدوں میں (1410ھ) شائع ہوچکی ہے، یہ کتاب بھی سنن کبریٰ میں موجود ہے، (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ 10/ 5، کتاب نمبر 66)۔
کتاب التفسیر حمزہ کی روایت میں مستقل تالیف ہے (تہذیب التہذیب 1/6)، اس کا مستقلاً ذکر کئی کتابوں میں آیا ہے، ذہبی نے تاریخ الاسلام میں لکھاہے کہ یہ کتاب ایک مجلد میں ہے (السیر14/133)نیز ملاحظہ ہو: البرہان فی علوم القرآن للزرکشی 2/159، نصب الرأیۃ 3/383، وحسن المحاضرۃ 1/197)۔
6- (4) فضائل القرآن: یہ نسائی کی مستقل کتا ب ہے، نیز یہ سنن کبریٰ میں بھی داخل ہے (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ کتاب نمبر59، مجلد 7/241) (مطبوع بتحقیق ڈاکٹر فاروق حمادہ، دار الثقافۃ، الدار البیضاء مراکش 1980ء، صفحات 143)، نیز ملاحظہ ہو: البرہان فی علوم القرآن للزرکشی 1/432) والإتقان للسیوطی 2/151)۔
7- (5) خصائص علي: امام نسائی نے آخری عمر میں دمشق میں اس کتاب کی تصنیف کی، بعد میں یہ فضائل صحابہ کے ساتھ سنن کبریٰ میں بھی داخل ہوگئی (ملاحظہ ہو: السنن الکبری، کتاب نمبر61ج7/407)۔ یہ کتاب ابن خیر کی مرویات میں سے ہے (ملاحظہ ہو: فہرست ابن خیر صفحہ 209) امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ سنن کبریٰ میں داخل ہے (السیر14/133) نیز ابن سیار نے اسے مستقلاً روایت کیا ہے (تہذیب التہذیب 1/6) اس کتاب کاتذکرہ کئی جگہ آیا ہے (ملاحظہ ہو: طبقات الشافعیہ للسبکی، تاریخ الاسلام 9/173، حسن المحاضرۃ 1/197، ہدیہ العارفین 1/56، الرسالۃ المستطرفۃ 59)، اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، جن میں (بتحقیق احمد میرین بلوشی رحمہ اللہ، کویت 1406ھ، وبتحقیق ابواسحاق الحوینی، دارالکتاب العر بی 1407ھ) زیادہ اہم ہے، اس کتاب کا ترجمہ مع شرح مولانا ابوالحسن محمد سیالکوٹی نے (1892ء) میں شائع کیا، ابوالقاسم رضوی قمی نے اس کا فارسی ترجمہ (1898ء) میں لاہور سے شائع کیا۔
٭ کتاب الجمعۃ: اس نام سے ایک مستقل کتاب کاقلمی نسخہ موجود ہے، سنن میں بھی یہ کتاب آئی ہے، اس کی تفصیل آگے ملاحظہ ہو۔
٭مزید مطبوع کتابیں یہ ہیں:
8- (1) تسمیۃ فقہاء الأمصار من أصحاب رسول اللہ ﷺ ومن بعدہ من أہل المدینۃ: (ناشر: شیخ صبحی بدری سامر ائی، مجموعۃ رسائل من علوم الحدیث کا پہلا رسالہ صفحات 7-10، مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ 1969ء)
9- (2) الطبقات: (مطبوع، ناشر: شیخ صبحی بدر سامرائی، مجموعۃ رسائل من علوم الحدیث کا دوسرا رسالہ (صفحات 15-17) (الرسالۃ المستطرفۃ للکتانی 138) مطبوع کتاب میں صرف اصحاب نافع کا ذکرہے۔
10- (3) تسمیۃ من لم یروعنہ غیر رجل واحد (مطبوع، ناشر: شیخ صبحی بدر سامرائی، مجموعۃ رسائل من علوم الحدیث کا تیسرا رسالہ (صفحات 21-22) یہ کتاب پہلے الضعفاء والمتروکین کے آخر میں شائع ہوئی تھی، فواد سزکین نے ذکر کیاہے کہ اس کے نسخے مکتبہ احمد الثالث، ترکی (4/624) میں ہیں (تاریخ التراث العربی 426)۔
11- (4) کتاب الضعفاء والمتروکین (مطبوع) بروایت حسن بن رشیق المصری عن النسائی، یہ سمعانی اور ابن خیر کی مرویات میں سے ہے، (التحبیرللسمعانی 2/17، فہرست ابن خیر 209)، اس کا ذکر ابن الأبار نے معجم الصدفی (ص: 72) میں کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: مقدمۃ ابن الصلاح (ص: 349) فتح المغیث للسخاوی 3/314، الرسالۃ المستطرفۃ (ص: 144) اس کتاب کا ذکر حافظ ابن حجر نے لسان المیزان میں متعدد مقامات پر کیا ہے (ملاحظہ ہو: 373، 415، 422)، اس کتاب میں (675) رواۃ کا ذکر ہے، اور کلام بہت مختصر ہے۔ یہ کتاب (1323ھ =1905ء) میں ہندوستان میں شائع ہوئی تھی، پھر محمود ابراہیم زاید کی تحقیق سے دار الوعی، حلب، دمشق سے (1975ء) میں شائع ہوئی۔
12- (5) من حدث عنہ ابن أبي عروبۃ ولم یسمع منہ (کتاب الضعفاء والمتروکین کے آخر میں شائع ہے)
٭بعض ایسی کتابیں جن کے قلمی نسخے بعض مکتبات میں موجودہیں:
13- (1) الجمعۃ: بغدادی نے اسے ہدیۃ العارفین (1/56) میں ذکرکیاہے، اس کے مخطوطات کئی جگہ پائے جاتے ہیں، محمد بن محمد بن الحسن بن علی التمیمی الدارمی نے اس کو اپنی ''ثبت مرویات'' میں مستقلاً ذکرکیا ہے، یہ ''ثبت'' دیر اسکوریال، اسپین کے مکتبہ میں مجموع رقم (1758)میں موجود ہے، ڈاکٹر فاروق حمادہ کہتے ہیں: یہ بعید نہیں ہے کہ یہ وہی ہو جوسنن کبریٰ میں موجود ہے، لیکن کبریٰ سے تقابل کے بعد ہی کوئی قطعی بات کہی جاسکتی ہے، پھر فہرست محمد بن علی بن غازی عثمانی مکناسی (ت: 919ھ) کے ثبت سے نقل کرتے ہیں کہ کتاب الجمعہ سنن کبریٰ کی ایک کتاب ہے، میں نے اس کو اس لیے مستقلاً ذکر کیاہے کہ یہ سند عالی سے ابن حیویہ کے طریق سے متصل ہے (ص: 185)، اور (ص: 54) (مقدمۃ عمل الیوم واللیلۃ 40)۔ یہ سنن صغریٰ میں (14) نمبر کی کتاب ہے، اور سنن کبریٰ میں (6) نمبرکی کتاب ہے (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ 2/257)۔
14 - (2) کتاب الإغراب: مسند حدیث شعبۃ وسفیان الثوری مما رواہ شعبۃ، ولم یروہ سفیان، أو رواہ سفیان ولم یروہ شعبۃ من الحدیث والرجال، ابن خیر نے نسائی سے اس کی روایت سعید بن جابر وابن حیویہ کے طریق سے کی ہے (فہرست ابن خیر 146) یہ کتاب حافظ ابن حجر کی مرویا ت میں سے ہے، جس کو آپ نے دو طریق سے بروایت ابوالحسن محمد بن حیویہ روایت کیا ہے، دوسری روایت میں جزء رابع کی روایت ہے (المعجم المفہرس لابن حجر 984، ہدیۃ العارفین 1/56)، ڈاکٹر فاروق حمادہ کو اس کتاب کا چوتھا جزء مکتبہ دیر اسکوریال، اسپین میں ملاہے، جس پر یہ لکھاہے: الجزء الرابع من حديث شعبة بن الحجاج وسفيان بن سعيد الثوري مما أغرب به بعضهم على بعض اور یہ ابن حیویہ کی روایت سے ہے، اور اس پر (709) کی تاریخ سماع ہے، اور یہ (17)ورقہ میں ہے (مقدمۃ عمل الیوم واللیلۃ 39)۔
15- (3) جزء من حدیث عن النبی ﷺ: فؤاد سزکین نے مجموع (107) ظاہریہ دمشق کے ایک نسخے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کا ذکرکیا ہے، جو (310-321) ورقے پر ہے، اوریہ ساتویں صدی ہجری کا مخطوط ہے۔
16- (4) إملاء اتہ الحدیثیۃ: مکتبہ ظاہریہ دمشق میں حدیث رقم: 163کے تحت دومجالس املا ء موجود ہیں (ورقہ 51-54)۔
٭بعض وہ کتابیں جن کا تذکرہ صحاح ستہ کے رجال اور اطراف احادیث کی کتابوں
میں آتاہے اور مؤلفین نے ان کتابوں کے رموز کاذکر مقدمہ کتاب میں کیاہے:
٭عمل الیوم واللیلۃ کارمز (سی)ہے اورخصائص علی کا (ص)اوپردونوں کتابوں کا ذکر آچکاہے۔
17- (1) مسند حدیث مالک بن انس: اس کتاب کے رواۃکا رمز کتب رجال (تقریب التہذیب اور خلاصۃ تہذیب الکمال وغیرہ) میں (کن) ہے۔ اس کتاب کی روایت امام نسائی سے حمزہ کنانی، حسن بن رشیق اور حسن بن الخضر الاسیوطی نے کی ہے، اور ان سب سے ابن خیر نے روایت کی ہے (فہرست ابن خیر 145) یہ حافظ ابن حجر کی مرویات میں سے ہے، جو بسند ابی الحسن بن الخضر الاسیوطی عن النسائی ہے، (المعجم المفہرس لابن حجر 1500)، ابن حجر نے فتح الباری میں بھی اس کا ذکرکیاہے 4/60، معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری (1217) اس کا تذکرہ ذہبی نے (السیر 8/85، اورالعبر 2/35) میں کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: (حسن المحاضرۃ فی أخبار مصر والقاہرۃ 1/198، ہدیۃ العارفین 1/56)۔
18- (2) مسند علي بن أبی طالب: ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب حافل یعنی بڑی ہے (السیر14/133، وتاریخ الاسلام)، اور ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اس کے کافی اقتباسات ذکرکیے ہیں، ملاحظہ ہو: (فتح الباری 1/204، معجم المصنفات الواردۃ فی فتح الباری 1222) اس کتاب کو زیلعی سنن کبریٰ میں شمارکرتے ہیں (نصب الرایۃ للزیلعی 3/110)، تہذیب الکمال، اور دوسری صحاح ستہ کے رجال کی کتابوں میں اس کا رمز (عس) ہے۔ (ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب اور تہذیب التہذیب، الخلاصۃ للخزرجی کے مقدمات، و کشف الظنون)۔