صحاح ستہ کے مجموعہ میں سنن ابن ماجہ کا مرتبہ و مقام:
صحاح ستہ کی مشہور اصطلاح میں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن نسائی اور سنن ترمذی تو بالاتفاق داخل ہیں، ان کو دواوین اسلام بھی کہا جاتا ہے، چھٹویں کتاب کی تعیین اور تحدید کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف رہا ہے۔
سب سے پہلے حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ کو دواوین اسلام میں چھٹویں کتاب کے طور پر اپنی دو کتابوں میں داخل کیا، پہلی کتاب ''اطراف الکتب الستہ'' ہے، اور دوسری ''شروط الائمۃ الستہ''، اس طرح سے ابن ماجہ کا شمار اس مجموعہ میں پہلی مرتبہ ہوا۔
اس کے بعد حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ان کی اتباع میں ابن ماجہ کو ''اطراف السنن الاربعہ''میں داخل کیا۔
اس کے بعد امام مزی رحمہ اللہ نے اس کتاب کو ''زیادات خلف الواسطی''اور ''زیادات ابی مسعود الدمشقی'' کے ساتھ ملا کر ''تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف'' کا جزء بنادیا، حافظ ابن عساکر نے ائمہ ستہ کے شیوخ پر مشتمل کتاب ''المعجم المسند'' میں ابن ماجہ کو چھٹویں امام کے طور پر متعارف کرایاہے۔
اس کے بعد حافظ عبدالغنی مقدسی رحمہ اللہ نے ''الاکمال فی اسماء الرجال'' میں یہی ترتیب باقی رکھی، اور امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ''تہذیب الکمال'' میں مذکورہ کتاب کی تہذیب وتدوین کر کے ابن ماجہ کو کتب ستہ یا دواوین اسلام کا مستقل جزء مشتہر کر دیا، اس طرح سے محدثین کے یہاں صحاح ستہ کے نام پر مشہور مجموعہ حدیث میں ابن ماجہ کا نام زبان زد عام وخاص ہو گیا۔
لیکن ''تجرید الصحاح والسنن'' کے مؤلف رزین بن معاویہ العبدری نے ابن ماجہ کی جگہ پر ''موطأ امام مالک'' کو رکھا، اور ابن الاثیر نے ان کی متابعت میں ''جامع الاصول'' میں ابن ماجہ کی جگہ ''احادیث موطأ ''کا ذکر کیا۔
''موطأامام مالک'' کو صحاح ستہ میں رکھنے کی وجہ بہت واضح ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا علمی مقام، احادیث موطأ کی صحت، اور علماء کا اس پر اعتماد، لیکن موطأ میں آثار صحابہ واقوال تابعین کی کثرت ہے، اسی طریقہ سے اس میں امام مالک رحمہ اللہ بغیر سند کے بہت سی احادیث ذکر کرتے ہیں، جن کو اصطلاح میں ''بلاغات مالک ''کہا جاتا ہے جس میں امام مالک «بلغني عن رسول الله ﷺ كذا، أو عن أبي بكر كذا» کے صیغہ سے حدیث یا اثر ذکر کردیتے ہیں، ایسے ہی مرسل احادیث ذکر فرماتے ہیں جس میں تابعی بغیر واسطہ ذکر کئے رسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کرتے ہیں۔
موطأ میں موجود علمی مواد مذکورہ پانچوں کتابوں پر معمولی اضافہ ہی ہوگا، لیکن ابن ماجہ میں زوائد کی کثرت ہے کما تقدم۔
بعض علماء نے موطأ یا سنن ابن ماجہ کے بجائے سنن دارمی کو اس مجموعہ کی چھٹی کتاب کے طور پر شمار کیا ہے۔ حافظ مغلطائی، علائی، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہی راے ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی راے میں'' سنن ابن ماجہ'' پر ''سنن دارمی'' کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ سنن دارمی میں سنن ابن ماجہ کے مقابلہ میں ضعیف احادیث بہت کم ہیں، لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ابن طاہر مقدسی رحمہ اللہ نے سنن دارمی کو اس مجموعہ میں شاید اس واسطہ نہیں رکھا کہ امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی نے صحابہ اور تابعین کے بے شمار اقوال وفتاوی کواپنی کتاب میں جگہ دی ہے، جبکہ ابن ماجہ نے اپنی کتاب میں مرفوع احادیث کو بڑے سلیقہ سے کثیر تعداد میں فقہی ابواب کے تحت ذکر کرکے تفقہ اور فتاوے کے باب میں ایک بڑا علمی اضافہ کیا ہے۔
اوپر کی تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ بذات خود امام ابن ماجہ فن حدیث کے قابل اعتماد اور معتبر ناقد اور متبحر عالم دین، اور سنت رسول اور اتباع سنت کے شیدائی تھے، فن تصنیف و تبویب اور تفقہ میں غایت درجہ مہارت تھی جس کی یہ کتاب شاہد عدل ہے، امام بن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اس کتاب پر اس طرح تبصرہ کیا ہے: وهي دالة على علمه و تبحره واطلاعه واتباعه السنة في الأصول والفروع (سنن ابن ماجہ مولف کے علم وفضل، تبحر علمی، احادیث پراطلاع اور اصول وفروع میں آپ کی اتباع سنت پر دلیل ہے)
ابن کثیر ''الباعث الحثیث'' میں مزیدلکھتے ہیں: و هوكتاب مفيدقوي التبويب في الفقه. (یہ کتاب فقہی تبویب میں قوی اورمفید ہے)
لیکن سنن میں ضعیف اور منکر راویوں سے روایت کی وجہ سے منکر وضعیف اوربعض موضوع روایات کے آجانے سے صحاح ستہ میں شمار ہونے کے باوجود سب سے آخری درجہ پر اس کتاب کا نام آیا، اور سابقہ نقول سے یہ بھی واضح ہوا کہ امام ابوزرعہ سے منقول قول کی سند ضعیف ہے اس لئے وہ ناقابل استدلال ہے اور ثبوت کی صورت میں تاویل و توجیہ کے بغیر کوئی چارئہ کارنہیں، خود حافظ ابن عساکر کی روایت میں کتاب کے بعض اجزاء کے موجود ہونے کی بات کہی گئی ہے اور یہی ان کے قول کی صحت کے بعد کہنا صحیح ہوگا کہ جس حصہ کو امام ابوزرعہ نے دیکھا تھا اس میں تیس ضعیف احادیث تھیں، امام ذہبی کا جو اندازہ تھا وہ شیخ البانی کی ضعیف ابن ماجہ کے عدد سے قریب تر ہے، یہ واضح رہے کہ ابن ماجہ میں موجود بہت سی احادیث کو خود ابوزرعہ نے ہدف تنقید بنایا ہے اور ان کو باطل، ساقط اور منکر قرارا دیا ہے، کما فی علل الحدیث لابن ابی حاتم الرازی۔