سنن ابن ماجہ کی تصنیفی خوبیاں:
1- ابن ماجہ نے اپنی کتاب کی ابتداء احادیث نبویہ کی فضیلت ومنقبت اور اتباع سنت اور فضائل صحابہ وغیرہ پر مشتمل مقدمہ سے فرمائی ہے جو کتاب کی بڑی اہم خوبی مانی جاتی ہے، اور تربیتی وتعلیمی نقطہ نظر سے ہر مسلمان کے لئے اس میں رہنمائی ہے۔
2- احادیث کی ترتیب بڑے اچھے طریقہ پر ہے، نیز اختصار بھی مد نظر ہے، اور ابواب کی کثرت کے ساتھ ان میں تکراراحادیث بھی نہیں ہے، یہ خوبی صحیح امام مسلم میں پائی جاتی ہے کہ احادیث ایک ہی باب میں اکٹھا مل جاتی ہیں لیکن تکرار متن وسند کے ساتھ، اور دوسرے ابواب میں ان کا اعادہ نہیں ہوتا۔
3- زوائد ابن ماجہ کے بارے میں امام مزی رحمہ اللہ کا ایک قول علماء کے یہاں مشہور ومعروف ہے کہ تفردات ابن ماجہ اکثر وبیشتر ضعیف ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ابن القیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد) میں یہ راے نقل کی ہے، نیز مزی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: «وكتاب ابن ماجه إنما تداولته شيوخ لم يعتنوا به بخلاف صحيحي البخاري ومسلم، فإن الحفاظ تداولوهما واعتنوا بضبطهما وتصحيحهما»، قال: «ولذلك وقع فيه أغلاط وتصحيف» .
یعنی ابن ماجہ ایسے مشایخ کے یہاں متداول تھی جنہوں نے اس کی خدمت نہیں کی، برعکس اس کے صحیح بخاری و صحیح مسلم حفاظ کے یہاں متداول تھی، انہوں نے بخاری ومسلم کے ضبط وتدوین اور تصحیح کا خیال رکھا، یہی وجہ ہے کہ ابن ماجہ میں غلطیاں اور تصحیفات واقع ہوئیںہیں۔
امام مزی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مذکورہ راے فی الجملہ صحیح ہے کیونکہ زوائد میں (600) سے زیادہ حدیثیں ضعیف ہیں، اور یہ بہت بڑی تعداد ہے، لیکن ساری حدیثوں کو مطلقًا ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے، اسی لئے ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ زوائد ابن ماجہ میں ایسی حدیثیں بھی ہیں جو صحیح ہیں اور جسے صرف ابن ماجہ ہی نے روایت کیا ہے: «بل هناك أحاديث نبهت عليها وهي صحيحة، وهي مما تفرد بها ابن ماجه» .
4- سنن ابن ماجہ کے راوی ابو الحسن القطان نے (44) حدیثیں اپنی سند سے روایت کی ہیں، ان میں سے بعض قول کسی لفظ کی تشریح یا کسی مسئلہ کی توجیہ پر مشتمل ہے، اس اضافہ کا سبب اپنی عالی سند کا تذکرہ ہوتا ہے یا مذکورہ فوائد، یہ تعداد سنن ابن ماجہ سے خارج ہوجائیں گی۔