کتاب سنن ابوداود اہل فن کی نظرمیں:
کتاب السنن کی اہمیت وافادیت اہل فن کے نزدیک مسلم ہے، امام ابوداود نے سب سے پہلے اپنی اس تالیف کو اپنے استاذ امام احمد بن حنبل پر پیش کیا، تو انہوں نے انتہائی خوشی کا اظہار فرما یا اور بہت پسند کیا، خطیب بغدادی فرماتے ہیں: كان أبو داود قد سكن البصرة، وقدم بغداد غير مرة، وروى كتابه المصنف في السنن بها ونقله عنه أهلها، ويقال: إنه عرضه على أحمد بن حنبل فاستجاده واستحسنه (تاریخ بغداد 9؍56)، ابو داود نے بصرہ میں سکونت اختیار فرمائی، اور بغداد کئی بارتشریف لئے آئے، اور وہاں پر اپنی سنن کی روایت کی، اہل بغداد نے آپ سے سنن کو نقل کیا، کہا جاتا ہے کہ آپ نے کتاب السنن بہت پہلے تصنیف فرمائی، اور احمد بن حنبل پر پیش کیا جسے آپ نے پسند فرمایا، اور داد تحسین دی (تاریخ بغداد 9؍56)۔

محدث زکریا الساجی فرماتے ہیں: كتاب الله عز وجل أصل الاسلام، وكتاب السنن لأبي داود عهد الإسلام. (کتاب اللہ اصل دین اسلام ہے، اور سنن ابو داود اسلام کا عہد)۔
سنن کی افادیت کے بارے میں ابو داود کے شاگرد حافظ محمد بن مخلد م 331ھ؁ فرماتے ہیں: لما صنف كتاب السنن وقرأه على الناس صار كتابه لأهل الحديث كالمصحف يتبعونه ولا يخالفونه وأقر له أهل زمانه بالحفظ والتقدم فيه (تہذیب الکمال 11؍ 365) جب اما م ابو داود نے سنن کو تالیف کر کے لوگوں پر پڑھا تو یہ اہل حدیث کے نزدیک مصحف کی حیثیت اختیا ر کرگئی، وہ اس کی اتباع کیا کرتے تھے اور اس کی مخالفت نہیں کرتے تھے، اہل عصر نے آپ کے حفظ حدیث اور اس میں تقدم کا اعتراف کیا۔

سنن کے بارے میں حافظ ابن حزم ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ: حافظ سعید بن سکن صاحب الصحیح 353ھ؁ کی خدمت میں اصحاب حدیث کی ایک جماعت حاضرہوئی، اور عرض کیا کہ ہمارے سامنے احادیث کی بہت سی کتابیں آگئی ہیں، آپ اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کچھ ایسی کتا بوں کی طرف کر یں جن پر ہم اکتفا کرسکیں تو حافظ ابن السکن نے یہ سن کر کچھ جواب نہیں دیا، بلکہ اٹھ کر سید ھے گھر تشریف لے گئے، اور کتابوں کے چار بستہ لا کراو پر تلے رکھ دیئے، اور فرمانے لگے: هذه قواعد الإسلام: كتاب مسلم، وكتاب البخاري، وكتاب أبي داود، وكتاب النسائي، یہ اسلام کے بنیادی مراجع ہیں: صحیح مسلم، صحیح بخاری، سنن ابو داود، سنن نسائی۔
اور امام خطابی (م388ھ؁) کہتے ہیں: إن كتاب السنن لأبي داود كتاب شريف لم تصنف في علم الدين كتاب مثله، وقد رزق القبول من الناس كافة فصار حكما بين فرق العلماء وطبقات الفقهاء على اختلاف مذاهبهم فلكل فيه ورود، منه شرب، وعليه معول أهل العراق، وأهل مصر، وبلاد المغرب، وكثير من مدن أقطار الأرض، فأما أهل خراسان فقد أولع أكثرهم بكتاب محمد بن إسماعيل ومسلم بن الحجاج ومن نحا نحوهما في جمع الصحيح على شرطهما في السبك والانتقاد. (ابو داود کی کتاب السنن محترم کتاب ہے، علم دین میں اس کے مثل کوئی کتاب تصنیف نہیں کی گئی، سارے لوگوں کے یہاں یہ مقبول ہے، اور تمام مذاہب کے فقہاء، اور علماء کے یہاں اس کوحکم کا درجہ حاصل ہے، ہر ایک کے لئے یہ مرجع ہے، جس سے وہ سیراب ہوتا ہے، عراق، مصر اور بلاد مغرب نیز سارے دنیا کے ممالک کا اس پر دار و مدار ہے، اہل خراسان کی اکثریت بخاری ومسلم اور ان کے نقش قدم پر اور ان کی شرطوں کے مطابق احادیث صحیحہ کے جامعین سے زیادہ شغف رکھتے ہیں)۔

امام حاکم نیساپوری نے سنن ابی داود کو صحیح کہا ہے۔
امام ابوداود کا اپنا بیان ہے کہ میر ے خیال میں قرآن پاک کے بعد جتنا اس کتاب سنن ابی داودکو سیکھنا لوگوں پر لازم ہے، اتنا کسی او رچیز کا نہیں، اگر کوئی شخص اس کتاب کے علاوہ کوئی اور علم نہ سیکھے تو وہ خاسرنہیں ہوگا، او رجو اس کو دیکھے سمجھے اور اس میں غور کرے گا تو اس کو اس کی قدر معلوم ہو جائے گی۔
مزید فرماتے ہیں: ’ ’وقد جمع أبوداود في كتابه هذا من الحديث في أصول العلم وأمهات السنن وأحكام الفقه ما نعلم متقدما سبقه إليه ومتأخراً لحقه فيه (ابو داود نے اس کتاب میں اصول علم ا ور سنن کے بنیادی مسائل، اور فقہی احکام اس طرح جمع کردیئے ہیں کہ نہ تو کسی متقدم نے ایسا کیا، اور نہ ہی کوئی بعد کا آدمی ایسا کرسکا)۔