سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
Chapters on Manners
32. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ اتِّخَاذِ الْقُصَّةِ
32. باب: زائد بالوں کا گچھا اپنے بال میں جوڑنے کی حرمت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2781
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، اخبرنا حميد بن عبد الرحمن، انه سمع معاوية بالمدينة يخطب يقول: اين علماؤكم يا اهل المدينة، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن هذه القصة ويقول: " إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذها نساؤهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن معاوية.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بِالْمَدِينَةِ يَخْطُبُ يَقُولُ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ هَذِهِ الْقُصَّةِ وَيَقُولُ: " إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ.
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی الله عنہ کو مدینہ میں خطبہ کے دوران کہتے ہوئے سنا: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان زائد بالوں کے استعمال سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور آپ کہتے تھے: جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تو وہ ہلاک ہو گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے معاویہ رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 54 (3468)، واللباس 83 (5932)، صحیح مسلم/اللباس 33 (2127)، سنن ابی داود/ الترجل 5 (4167)، سنن النسائی/الزینة 21 (5095)، و68 (5249-5250) (تحفة الأشراف: 11407)، وط/الشعر 1 (2)، و مسند احمد (4/95، 98) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ مزید بال لگا کر بڑی چوٹی بنانا یہ فتنہ کا باعث ہے، ساتھ ہی یہ زانیہ و فاسقہ عورتوں کا شعار بھی ہے، بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب یہ شعار اپنایا تو لوگ بدکاریوں میں مبتلا ہو گئے، اور نتیجۃ ہلاک و برباد ہو گئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (100)
Save to word مکررات اعراب

تخریج الحدیث:

قال الشيخ الألباني:

قال الشيخ زبير على زئي:
حدیث نمبر: 2
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن بن عيسى القزاز، حدثنا مالك بن انس. ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن، ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا توضا العبد المسلم او المؤمن فغسل وجهه، خرجت من وجهه كل خطيئة نظر إليها بعينيه مع الماء، او مع آخر قطر الماء او نحو هذا، وإذا غسل يديه خرجت من يديه كل خطيئة بطشتها يداه مع الماء، او مع آخر قطر الماء، حتى يخرج نقيا من الذنوب". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح وهو حديث مالك، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة , وابو صالح والد سهيل هو ابو صالح السمان، واسمه ذكوان، وابو هريرة اختلف في اسمه، فقالوا: عبد شمس، وقالوا: عبد الله بن عمرو، وهكذا قال: محمد بن إسماعيل وهو الاصح. قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان بن عفان , وثوبان , والصنابحي , وعمرو بن عبسة , وسلمان , وعبد الله بن عمرو , والصنابحي الذي روى عن ابي بكر الصديق ليس له سماع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واسمه: عبد الرحمن بن عسيلة ويكنى ابا عبد الله، رحل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الطريق، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث، والصنابح بن الاعسر الاحمسي صاحب النبي صلى الله عليه وسلم، يقال له: الصنابحي ايضا، وإنما حديثه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" إني مكاثر بكم الامم فلا تقتتلن بعدي".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ، أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ هُوَ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ، وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ، وَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَهَكَذَا قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل وَهُوَ الْأَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , وَثَوْبَانَ , وَالصُّنَابِحِيِّ , وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ , وَسَلْمَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْمُهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، وَالصُّنَابِحُ بْنُ الْأَعْسَرِ الْأَحْمَسِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ فَلَا تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں ۱؎، جو اس کی آنکھوں نے کیے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎،
۲- اس باب میں عثمان بن عفان، ثوبان، صنابحی، عمرو بن عبسہ، سلمان اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ان کا سماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ، اور کنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس سفر کیا، راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔ اور صنابح بن اعسرا حمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہا جاتا ہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پر فخر کروں گا تو میرے بعد تم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 11 (244) (تحفة الأشراف: 12742) موطا امام مالک/الطہارة 6 (31) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: گناہ جھڑ جاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔
۳؎: بظاہر یہ ایک مشکل عبارت ہے کیونکہ اصطلاحی طور پر حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہے، تو اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجر نے کی ہے (الف) اگر حدیث کی دو یا دو سے زائد سندیں ہوں تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اور دوسری سند کے لحاظ سے صحیح ہے، اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے یہاں صحیح ہے، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حسن ہے یا صحیح۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 95)

قال الشيخ زبير على زئي: صحیح مسلم
حدیث نمبر: 702
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن ابي عطية، قال: دخلت انا ومسروق على عائشة، فقلنا: يا ام المؤمنين رجلان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم احدهما يعجل الإفطار ويعجل الصلاة، والآخر يؤخر الإفطار ويؤخر الصلاة، قالت: ايهما يعجل الإفطار ويعجل الصلاة؟ قلنا: عبد الله بن مسعود، قالت: هكذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، والآخر ابو موسى. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عطية اسمه مالك بن ابي عامر الهمداني ويقال ابن عامر الهمداني، وابن عامر اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟ قُلْنَا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: هَكَذَا صَنَع رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَطِيَّةَ اسْمُهُ مَالِكُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ وَيُقَالُ ابْنُ عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ، وَابْنُ عَامِرٍ أَصَحُّ.
ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گئے، ہم نے عرض کیا: ام المؤمنین! صحابہ میں سے دو آدمی ہیں، ان میں سے ایک افطار جلدی کرتا ہے اور نماز ۱؎ بھی جلدی پڑھتا ہے اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے اور نماز بھی دیر سے پڑھتا ہے ۲؎ انہوں نے کہا: وہ کون ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور نماز بھی جلدی پڑھتا ہے، ہم نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعود ہیں، اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے اور دوسرے ابوموسیٰ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوعطیہ کا نام مالک بن ابی عامر ہمدانی ہے اور انہیں ابن عامر ہمدانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور ابن عامر ہی زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1099)، سنن ابی داود/ الصوم 20 (2354)، سنن النسائی/الصیام 23 (2160)، (تحفة الأشراف: 17799)، مسند احمد (6/48) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (6/173) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: بظاہر اس سے مراد مغرب ہے اور عموم پربھی اسے محمول کیا جا سکتا ہے اس صورت میں مغرب بھی من جملہ انہی میں سے ہو گی۔
۲؎: پہلے شخص یعنی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ عزیمت اور سنت پر عمل پیرا تھے اور دوسرے شخص یعنی ابوموسیٰ اشعری جواز اور رخصت پر۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2039)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.