سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب (قبول دعوت اسلام سے) لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو (اللہ سے) دعا کی: ”اے اللہ! (ان پر) سات برس (قحط ڈال دے) جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے (عہد میں) سات برس تک (مسلسل قحط رہا تھا)۔“ پس قحط نے انھیں آ لیا۔ جس نے ہر قسم کی روئیدگی کو نیست و نابود کر دیا حتیٰ کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار اور سڑے جانور کھانا شروع کر دیئے اور بھوک کی وجہ سے (ضعف اس قدر ہو گیا کہ) جب کوئی ان میں سے آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو دھواں (سا) دکھائی دیتا۔ پس ابوسفیان (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے محمد! آپ تو اللہ کی بندگی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور بیشک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگ (ہیں جو مارے بھوک کے) مرے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ان کے لیے دعا کیجئیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے نبی! تم اس دن کا انتظار کرو جس دن آسمان ایک صریح دھواں ظاہر کرے گا اگر ہم ان کافروں سے عذاب دور کر دیں تو یہ پھر (بھی) کفر کریں گے اس کی سزا ان کو اسی دن ملے گی جس دن ہم ایک سخت گرفت میں ان کو پکڑیں گے۔“(الدخان: 10 - 16) ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بطشہ (یعنی پکڑ) بدر کے دن ہوئی اور بیشک (سورۃ الدخان میں) دخان (دھواں) اور بطشہ (پکڑ) اور (سورۃ الفرقان میں) لزام (قید) اور سورۃ الروم کی آیت میں جو ذکر ہے سب واقع ہو چکے ہیں۔