سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدالقیس (قبیلہ عبدالقیس) کے لوگ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے (ان سے) فرمایا کہ: یہ کون سی قوم یا (یہ پوچھا کہ) کون سی جماعت ہے؟ وہ بولے کہ (ہم) ربیعہ (کے خاندان) سے (ہیں) آپ نے فرمایا: قوم یا وفد کا آنا مبارک ہو، تم ذلیل ہو گے نہ شرمسار۔ پھر ان لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم سوا ماہ حرام کے (کسی اور وقت میں) آپ کے پاس نہیں آ سکتے (اس لیے کہ) ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کفار کا قبیلہ مضر رہتا ہے (ان سے ہمیں اندیشہ ہے) لہٰذا آپ ہمیں کوئی ٹھوس بات (خلاصہ احکام) بتا دیجئیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو (بھی) اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس (پر عمل کرنے) سے جنت میں داخل ہو جائیں اور ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پینے کی چیزوں کی بابت (بھی) پوچھا کہ (کون سی حلال ہیں اور کون سی حرام) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا۔ (1) ان کو حکم دیا صرف اللہ پر ایمان لانے کا (یہ کہہ کر) فرمایا: تم لوگ جانتے ہو کہ صرف اللہ پر ایمان لانا (کس طرح پر ہوتا) ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خوب واقف ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (حقیقی) نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ (ان کو حکم دیا) نماز پڑھنے کا۔ زکوٰۃ دینے کا۔ رمضان کے روزے رکھنے کا اور (حکم دیا) اس بات کا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال میں) دے دیا کرو اور چار چیزوں (یعنی چار قسم کے برتنوں میں پانی یا اور کوئی چیز پینے) سے منع کیا۔ (1) سبز لاکھی مرتبان سے (2) کدو کے تونبے سے (3) کریدے ہوئے لکڑی کے برتن (4) روغنی برتن سے اور کبھی (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مزفت کی جگہ) مقیر کہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کو یاد کر لو اور اپنے پیچھے والوں کو اس کی تبلیغ کر دو۔“