علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 40
´اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا`
«. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: إن امتي ياتون يوم القيامة غرا محجلين من اثر الوضوء، فمن استطاع منكم ان يطيل غرته فليفعل . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز میری امت کہ لوگ ایسی حالت میں آئیں گے کہ وضو کے اثرات کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ تم میں سے جو شخص اس چمک اور روشنی کو زیادہ بڑھا سکتا ہو اسے ضرور بڑھانی چاہیئے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 40]
� لغوی تشریح:
«غُرًّا» «یَأتُونَ» کی «هُمْ» ضمیر سے حال واقع ہو رہا ہے۔ ”غین“ پر ضمہ اور ”را“ پر تشدید ہے۔
«أَغُرًّ» کی جمع ہے اور «أَغُرًّ» اسے کہتے ہیں جس کے لیے سفیدی ہو۔ اور «غُرَّة» دراصل اس سفید چمک کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیشانی میں ہوتی ہے۔
«مُحَجَّلِيْن» «تَحْجِيْل» سے اسم مفعول واقع ہو رہا ہے۔ اس سفیدی کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے پاؤں میں ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ وضو کی چمک کی وجہ سے ان کے چہرے، ہاتھ اور پاؤں چمک رہے ہوں گے۔
«يُطِيلُ» «إِطَالَة» سے ماخوذ ہے۔ دراز، لمبا اور طویل کرنے کے معنی میں آتا ہے۔
«غُرَّتَهُ» اپنے چہرے کی چمک اور روشنی اور اسی طرح ہاتھ اور پاؤں کی روشنی۔ مطلب یہ ہوا کہ جہاں تک پانی پہچانا لازمی ہو وہاں سے آگے پہنچایا جائے۔
فوائد ومسائل:
➊ اس حدیث کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں:
◄ ایک یہ کہ اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا، مثلاً: ہاتھوں کو کندھوں تک اور پاؤں کو گھٹنوں تک۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے یہی مفہوم سمجھا اور اسی پر ان کا اپنا عمل تھا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمها اللہ بھی اسے مستحب سمجھتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ اسے مستحب نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وضو کی حد متعین ہے اور زیور اپنے مقام پر ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمها اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حد فرض سے زیادہ دھونا پسندیدہ امر نہیں۔ دیکھئے: [تيسير العلام شرح عمدة الأحكام 46/1 - 48]
◄ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر عضو وضو کو تین تین مرتبہ دھوئے۔ اور تیسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ وضو موجود ہو مگر ثواب کی نیت سے تازہ وضو کرے اور ہر وقت باوضو رہنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں مفہوم ظاہر کے خلاف ہیں۔
➋ اس آخری جملے کے بارے میں راوی کو تردد ہے کہ یہ مرفوع ہے یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد اور فتح الباری میں ہے۔ [1؍236، حدیث: 136]
اس لیے اس سے مقررہ حد سے زائد حصے کو دھونے کے استحباب پر استدلال محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إغاثة اللهفان: 1/ 200]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 40