جریر بن عبدالحمید نے اعمش سے، انہوں نے موسیٰ بن عبداللہ بن یزید اور (مسلم) ابوضحیٰ سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہلال عبسی سے اور انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، انہوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپ نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ ضرورت مند اور محتاج ہو گئے تھے تو آپ نے لوگوں کو (ان کے لیے) صدقہ کرنے کی ترغیب دی لیکن لوگوں نے اس میں سستی سے کام لیا، حتی کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے ظاہر ہونے لگی۔ کہا: پھر انصار میں سے ایک شخص چاندی (کے سکوں، درہموں) کی ایک تھیلی لے کر آ گیا، پھر دوسرا آیا، پھر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (صدقات لے کر) آنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ انور پر مسرت جھلکنے لگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا، اس کے لیے (ہر) عمل کرنے والے (کے اجر) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی۔"
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جنگلی لوگ آئے جواونی کپڑے پہنے ہوئے تھے،چنانچہ آپ نے ان کی بد حالی اور ضرورت کو محسوس فر لیا تو آپ نے لوگوں کو صدقہ پر ابھارا سو لوگوں نے صدقہ دینے میں تاخیر کی، حتی کہ آپ کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نمایاں ہو گئے،پھر ایک انصاری آدمی اور ہموں کی ایک تھیلی لایا پھر دوسرا آدمی صدقہ لایا، پھر لوگ مسلسل آنے لگے،حتی کہ آپ کے چہرے پر مسرت پیدا ہو گئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اسلام کے اندر اچھا طریقے جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا اس کے لیے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور دوسروں کے اجرو ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں غلط طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس عمل کرنے والوں کے برابر گناہ رکھا جائے گا اور ان دوسروں کے بوجھ (گناہوں) میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔"