یحییٰ بن یعمر نے ابو اسود دیلی سے روایت کی، کہا: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ جو عمل لوگ آج کر رہے ہیں اور اس میں مشقت اٹھا رہے ہیں، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا اور پہلے ہی سے مقدر ہے جو ان میں جاری ہو چکا ہے یا وہ نئے سرے سے ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، جس طرح اسے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس لائے ہیں اور ان پر حجت قائم ہوئی ہے؟ میں نے جواب دیا: بلکہ جس طرح ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور اس کا سلسلہ ان میں جاری ہے۔ (دیلی نے) کہا: تو (عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو کیا یہ ظلم نہیں؟ (دیلی نے) کہا: تو اس بات پر میں سخت خوفزدہ اور پریشان ہو کیا اور میں نے کہا: ہر چیز اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی ملکیت ہے۔ جو بھی وہ کرے اس سے پوچھا نہیں جا سکتا اور وہ (اس کے مملوک بندے) جو کریں ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تم پر رحم کرے! میں نے جو تم سے پوچھا صرف اسی لیے پوچھا تھا تاکہ تمہاری عقل کا امتحان لوں۔ مزینہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس طرح دیکھتے ہیں، لوگ جو عمل آج کر رہے اور اس میں مشقت اٹھا رہے ہیں کوئی ایسی چیز ہے جا کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا اور پہلے سے مقدر ہے جو ان میں جاری ہو چکی ہے یا وہ اب ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، جس طرح اسے ان کے رسول ان کے پاس لائے ہیں اور ان پر حجت تمام ہوئی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ بلکہ ایسی چیز ہے جو ان کے بارے میں طے ہو گئی ہے اور ان میں جاری ہو چکی، اور اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے: "اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو ٹھیک بنایا! پھر اس کو اس کی بدی بھی الہام کر دی اور نیکی بھی۔"
ابو الاسود ولی کہتے ہیں،مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا جانتے ہو؟آج لوگ جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو مشقت برداشت کر رہے ہیں،کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فاصلہ کر دیا گیا ہے وہ سابقہ تقدیر سے یہ طے ہو چکے ہیں؟یا ان کا نبی جو شریعت لایا اور ان پر حجت قائم ہو گئی ہے، اس کی روشنی میں نئے سرے سے ہو رہے ہیں؟ تو میں نے کہا بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے لیے طے ہو چکی ہے تو انھوں نے بھگتنی ہے) چنانچہ میں اس سے بہت زیادہ گھبرا گیا اور میں نے کہا، ہر چیز اللہ کی پیدا کردہ ہے اور اس کی مملوک ہے، اس لیے اس سے اس کے فعل کے بارے میں پوچھا۔نہیں جا سکتا اور مخلوق سے پوچھا جائے گا تو حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے کہا:اللہ تم پر رحم فرمائے میں نے تجھ سے سوال محض تیرے عقل و شعور کا اندازہ لگانے کے لیے کیا مزینہ قبیلہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے لوگ آج جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو محنت و مشقت کر رہے ہیں کیا یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور سابقہ تقدیر سے ان کے بارے میں طے ہو چکا ہے یا نئے سرے سے کر رہے ہیں،اس شریعت کی روشنی میں جو ان کا نبی ان کے پاس لایا ہے اور ان پر حجت قائم ہو چکی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:"نہیں بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے بارے میں طے ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ برتر اور بزرگ کی کتاب میں موجود ہے اور شاید ہے نفس اور اس کا نوک پلک سنوارنا کہ اس کا اسے اس کی بدی اور تقوی کا الہام فرمانا۔(الشمس آیت نمبر7،8)