علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 51
´ضرورت سے زائد پانی استعمال کرنا اسراف میں شمار ہو گا`
«. . . كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يتوضا بالمد، ويغتسل بالصاع إلى خمسة امداد . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”مد“ پانی سے وضو اور ”صاع“ (یعنی چار) سے پانچ ”مد“ تک پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 51]
� لغوی تشریح:
«اَلصَّاع» چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے۔ صاع موجودہ زمانے کے پیمانے کے حساب سے تقریباً تین لیٹر دو سو ملی لیٹر کا ہوتا ہے۔ حدیث سے ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عموماً غسل کے لیے چار یا پانچ مد پانی استعمال فرماتے تھے۔
فوائد ومسائل:
➊ وضو اور غسل کے لیے حتی الوسع اتنا ہی پانی استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جتنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ بلاوجہ ضرورت سے زائد پانی استعمال کرنا اسراف میں شمار ہو گا جو شریعت کی رو سے پسندیدہ نہیں ہے۔
➋ صحیح مسلم میں ایک ”فرق“ پانی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کرنے کی روایت بھی منقول ہے۔ [صحيح مسلم، الحيض، باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، حديث: 319] ”فرق“ ایک برتن ہوتا تھا جس میں تقریباً نو لیٹر اور چھ ملی لیٹر پانی آتا تھا۔ اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لبالب بھرا ہوا تھا بلکہ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ”فرق“ سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔
➌ اسی بنا پر امام شافعی اور امام aحمد رحمہما اللہ نے فرمایا ہے کہ ان احادیث میں پانی کی مقدار متعین نہیں کی گئی بلکہ یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے وضو یا غسل کر لیا کرتے تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 51