Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
151. بَابُ مَنْ لَمْ يَمْسَحْ جَبْهَتَهُ وَأَنْفَهُ حَتَّى صَلَّى:
باب: اگر نماز میں پیشانی یا ناک سے مٹی لگ جائے تو نہ پونچھے جب تک نماز سے فارغ نہ ہو۔
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ رَأَيْتُ الْحُمَيْدِيَّ يَحْتَجُّ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَمْسَحَ الْجَبْهَةَ فِي الصَّلَاةِ.
‏‏‏‏ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا میں نے عبداللہ بن زبیر حمیدی کو دیکھا وہ اسی حدیث سے یہ دلیل لیتے تھے کہ نماز میں اپنی پیشانی نہ پونچھے۔
حدیث نمبر: 836
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فَقَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ مٹی کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر صاف ظاہر تھا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 836 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 836  
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی پیشانی مبارک سے پانی اور کیچڑ کے نشانات کو صاف نہیں فرمایاتھا۔
امام حمیدی ؒ کے استدلال کی بنیاد یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 836   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:836  
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے مسئلہ اور اس کی دلیل ذکر کر دی لیکن اس کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اس دلیل کے کئی ایک احتمالات ہیں کیونکہ مٹی کے نشانات پیشانی پر ظاہر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ نے اسے دوران نماز میں صاف نہیں کیا تھا کیونکہ صاف کرنے کے بعد بھی اس کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں، نیز ممکن ہے کہ بھول کی وجہ سے اسے صاف نہ کر سکے ہوں یا آپ نے اپنے خواب کی تصدیق کے لیے اسے دانستہ چھوڑ دیا ہو یا آپ نے کیچڑ کے نشانات کو محسوس نہ کیا ہو یا بیان جواز کے لیے ایسا کیا ہو۔
جب اس طرح کے احتمالات دلیل میں موجود ہوں تو وہ استدلال کے قابل نہیں رہتی۔
(فتح الباري: 416/2)
اس سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سجدہ سے اگر مٹی کے نشانات پیشانی پر پڑ جائیں تو چنداں حرج نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 836   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 911  
´ناک پر سجدہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جس سے آپ کی پیشانی اور ناک پر مٹی کے نشانات دیکھے گئے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 911]
911۔ اردو حاشیہ:
امام ابوداؤد سے سنن ابوداؤد روایت کرنے والے معروف محدث چار ہیں۔ جن تک علماء محدثین کی اسانید پہنچتی ہیں۔
➊ ابوعلی محمد بن احمد بن عمرو اللؤلؤی البصری۔
➋ ابوبکر بن محمد بن عبد الرزاق التمار البصری المعروف بہ ابن داسہ۔
➌ ابوسعید احمد بن محمد بن زیاد بن بشر المعروف بہ ابن الاعرابی۔
➍ ابوعیسیٰ اسحاق بن موسیٰ بن سعید الرملی وراق ابی داؤد۔
لؤلؤی کا نسخہ مشرق میں اور ابن داسہ کا نسخہ مغرب میں مشہور ہوا ہے۔ [الحطة فى ذكر الصحاح الستة]
ان نسخوں میں کہیں کہیں باہم اختلاف ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 911   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1096  
´پیشانی پر سجدہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ (رمضان کی) اکیسویں رات کی صبح کو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کا نشان تھا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1096]
1096۔ اردو حاشیہ: سجدے میں ماتھے کا زمین پر لگنا ضروری ہے کیونکہ سجدے کے معنیٰ ہی ماتھا زمین پر رکھنا ہیں، الا یہ کہ کوئی عذر ہو، مثلاً: پھوڑا پھنسی ہو یا کمر یا سر میں تکلیف ہو یا آنکھ کا آپریشن کرایا ہو یا اس کے علاوہ جو چیزی بھی ماتھا زمین پر رکھنے سے مانع ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1096   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:774  
774- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ جب بیسویں رات کی صبح ہوئی ہم نے اپنا ساز و سامان منتقل کرنا شروع کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ملاحظہ فرمایا، تو ارشاد فرمایا: تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہتا ہو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ پر واپس چلا جائے۔ کیونکہ مجھے یہ رات (یعنی شب قدر) آخری عشرے میں دکھائی گئی ہے۔ میں نے خود کودیکھا ہے، میں اس رات کی صبح پانی اور مٹی (یعنی کیچڑ) میں سجدہ کر رہا ہوں۔ (راوی کہتے ہیں) اسی دن بارش ہوگئی۔ مسج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:774]
فائدہ:
صحیح مسلم (2796 / 1167) میں یہ حدیث تفصیل کے ساتھ ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں نے اس رات کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر درمیانی رات کا اعتکاف کیا، پھر جب بھی اعتکاف کے لیے آیا تو مجھ سے کہا گیا کہ وہ رات تو آخری عشرے میں ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہے وہ (آخری عشرے میں) اعتکاف کرے۔
اس کے بعد لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسنون اعتکاف رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ بارش کا پانی پاک ہے اور کیچڑ میں بامر مجبوری نماز پڑھنا درست ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 774   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 669  
669. حضرت ابوسلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے (شب قدر کے متعلق) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور خوب برسا، یہاں تک کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی جو کہ کھجور کی شاخوں سے تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد نماز کے لیے اقامت کہی گئی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ کی پیشانی پر بھی دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:669]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ اور بارش میں بھی نماز مسجد میں پڑھی۔
باب کا یہی مقصد ہے کہ ایسی آفتوں میں جو لوگ مسجد میں آجائیں ان کے ساتھ امام نماز پڑھ لے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 669   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:669  
669. حضرت ابوسلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے (شب قدر کے متعلق) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور خوب برسا، یہاں تک کہ مسجد کی چھت ٹپکنے لگی جو کہ کھجور کی شاخوں سے تیار کی گئی تھی۔ اس کے بعد نماز کے لیے اقامت کہی گئی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ کی پیشانی پر بھی دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:669]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ بارش کا موسم تھا جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے،اس لیے اغلب گمان ہے کہ تمام نمازی مسجد میں حاضر نہیں ہوسکے ہوں گے،اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر لوگ مسجد میں موجود تھے ان کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام فرمایا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان کا پہلا حصہ بھی یہی ہے کہ بارش یا دیگر عذروں کی بنا پر اگر تمام لوگ مسجد میں نہ آسکیں تو امام کو چاہیے کہ جو لوگ مسجد میں موجود ہوں،انھی کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام کرے۔
والله اعلم (2)
اس روایت میں انتہائی اختصار ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر اسے مفصل بیان کیا ہے،چنانچہ وضاحت ہے کہ حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رمضان المبارک میں بحالت اعتکاف تھے۔
آپ نے رمضان کی بیسویں تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا جائے،چنانچہ میں نے خود کو خواب میں دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اکیسویں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ چشم خود دیکھا کہ آپ کی پیشانی کیچڑ آلود تھی۔
یہ واضح طور پر اشارہ ہے کہ اس رمضان میں شب قدر رمضان کی اکیسویں رات کو تھی۔
(صحیح البخاری، فضل لیلۃ القدر،حدیث: 2018)
w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 669