صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
31. باب التَّوَسُّطِ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاَةِ الْجَهْرِيَّةِ بَيْنَ الْجَهْرِ وَالإِسْرَارِ إِذَا خَافَ مِنَ الْجَهْرِ مَفْسَدَةً:
باب: جب فتنہ کا اندیشہ ہو تو جہری نمازوں میں قراءت درمیانی آواز سے کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1002
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَتْ: أُنْزِلَ هَذَا فِي الدُّعَاءِ،
یحییٰ بن زکریا نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے اسی فرمان: ” نہ اپنی نماز میں (قراءت) بلند کریں اور نہ آہستہ“ کے بارے میں روایت کی کہ انہوں نے (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ یہ آیت دعا کے بارے میں اتری ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: نہ اپنی قرأت کو بلند کر اور نہ آہستہ کے بارے میں روایت ہے کہ آیت دعا کے بارے میں اتری ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1002 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1002
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نماز میں قراءت اور دعا نمازمیں ہو یا نماز سے باہر،
ان کو موقعہ اور محل کے مطابق بلند کیا جائے گا،
جہری نمازوں میں قراءت اور دعائے قنوت بلند آواز سے ہو گی تاکہ مقتدیوں تک آواز پہنچ سکے۔
اسی طرح ضرورت کے موقعہ پر اجتماعی دعا میں امام آواز کچھ نہ کچھ بلند کرے گا لیکن کہیں بھی اعتدال وتوسط کو نظر انداز نہیں کرے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1002
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6327
6327. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت: ”اپنی نماز نہ بہت زور زور سے پڑھیں نہ بالکل آہستہ آواز سے۔۔۔۔“ کے متعلق فرمایا کہ یہ دعا کے بارے میں نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6327]
حدیث حاشیہ:
لفظ آمین بھی دعا ہے اسے سورۃ فاتحہ کے ختم پر جہری نمازوں میں بلند آواز سے کہنا سنت نبوی ہے جس پر تینوں اماموں کا عمل ہے یعنی امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم۔
مگر حنفیہ اس سے محروم ہیں ”وَلَا تُخافِت بِھَا“ پر ان کو غور کرکے درمیان راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6327
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6327
6327. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت: ”اپنی نماز نہ بہت زور زور سے پڑھیں نہ بالکل آہستہ آواز سے۔۔۔۔“ کے متعلق فرمایا کہ یہ دعا کے بارے میں نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6327]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مذکورہ بالا آیت نماز کے متعلق نازل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
تم نماز میں قرآن کی قراءت اتنی بلند آواز سے نہ کرو کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اس قدر آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کریں۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4722)
جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوران نماز میں دعا کے متعلق فرمایا ہو، اس طرح دونوں اقوال میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
(فتح الباري: 515/8) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی تطبیق سے عنوان ثابت کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن مردویہ کے حوالے سے اس آیت کی شان نزول ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کے پاس نماز پڑھتے تو بلند آواز سے دعا کرتے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
(فتح الباري: 515/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6327