Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
31. باب التَّوَسُّطِ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاَةِ الْجَهْرِيَّةِ بَيْنَ الْجَهْرِ وَالإِسْرَارِ إِذَا خَافَ مِنَ الْجَهْرِ مَفْسَدَةً:
باب: جب فتنہ کا اندیشہ ہو تو جہری نمازوں میں قراءت درمیانی آواز سے کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1001
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جميعا، عَنْ هُشَيْمٍ ، قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم متوار بمكة، فكان إذا صلى بأصحابه، رفع صوته بالقرآن، فإذا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ، سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ قِرَاءَتَكَ، وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، أَسْمِعْهُمُ الْقُرْآنَ، وَلَا تَجْهَرْ ذَلِكَ الْجَهْرَ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا، يَقُولُ: بَيْنَ الْجَهْرِ وَالْمُخَافَتَةِ.
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا﴾ اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ اسے پست کریں کے بارے میں روایت کی، انہوں نے کہا: یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پوشیدہ (عبادت کرتے) تھے۔ جب آپ اپنے ساتھیوں کو جماعت کراتے تو قراءت بلند آواز سے کرتے تھے، مشرک جب یہ قراءت سنتے تو قرآن کو، اس کے نازل کرنے والے کو اور اس کے لانے والے کو برا بھلا کہتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی: اپنی نماز میں (آواز کو اس قدر) بلند نہ کریں کہ آپ کی قراءت مشرکوں کو سنائی دے اور نہ اس (کی آواز) کو پست کریں اپنے ساتھیوں سے، انہیں قرآن سنائیں اور آواز اتنی زیاد اونچی نہ کریں اور ان (دونوں) کے درمیان کی راہ اختیار کریں۔ (اللہ تعالیٰ) فرماتا ہے: بلند اور آہستہ کے درمیان (میں رہیں۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا﴾ (الاسراء: ۱۱۰) کے بارے میں روایت ہے کہ یہ آیت اس وقت اتری، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر عبادت کرتے تھے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو جماعت کراتے تو قرأت بلند آواز سے کرتے تھے، مشرک جب یہ قرأت سنتے تو قرآن کو، قرآن مجید نازل کرنے والے کو اور اس کو لانے والے کو برا بھلا کہتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی کہ اپنی نماز میں قرأت کو نہ اس قدر بلند کرو کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت مشرکوں کو سنائی دے اور نہ اتنا آہستہ پڑھیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی نہ سن سکیں، انہیں قرأت سناؤ لیکن اس قدر بلند نہ کرو (کہ مشرک سنیں) اور ان کے درمیان کی راہ اختیار کرو مقصد یہ ہے کہ بلند اور آہستہ کے درمیان رہو۔