حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ، إِذَا اسْتَأْذَنَّكُمْ إِلَيْهَا "، قَالَ: فَقَالَ بِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: وَاللَّهِ لَنَمْنَعُهُنَّ، قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ، فَسَبَّهُ سَبًّا سَيِّئًا، مَا سَمِعْتُهُ سَبَّهُ مِثْلَهُ قَطُّ، وَقَالَ: أُخْبِرُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: وَاللَّهِ لَنَمْنَعُهُنَّ.
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 989
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت بلال بن عبداللہ نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنی ذاتی رائے کو پیش کیا توحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سخت سرزنش وتادیب کی اور برا بھلا کہا،
بلکہ بعض روایات میں آیا ہے موت تک اس سے گفتگو نہیں کی،
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو انسان حدیث نبوی کے مقابلے میں اپنی یا کسی کی رائے اور قیاس کرے وہ سرزنش وتادیب کا مستحق ہے۔
اگرچہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 989
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 899
´اس شخص پر جو نماز جمعہ میں حاضر نہ ہو تو کیا اس پر غسل ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسَاجِدِ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دے دیا کرو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 899]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ اس شخص پر جو نماز جمعہ میں حاضر نہ ہو تو کیا اس پر غسل ہے۔۔۔
اور حدیث پیش کرتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے مت روکیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو رات کی نماز میں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور دن کی نماز میں آنا ثابت نہیں ہو رہا ہے اسی طرح سے دن کی نماز میں جمعہ کی نماز بھی شامل ہے تو جب دن کی نماز میں نہ آنا ثابت ہو رہا ہے تو بالاولیٰ جمعہ بھی دن کی ہی نمازوں میں شامل ہے اور جب عورت جمعہ کی نماز میں نہیں آ رہی تو وہ غسل بھی نہیں کرے گی یعنی غسل کرنا اس کے لیے ضروری نہ ٹھہرا جو جمعہ کے لیے نا جائے۔ یہی مراد ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب اور حدیث سے۔
◈ امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں .
«فان قيل مفهوم التقييد بالليل يمنع النهار والجمعة نهارية»
”پس یہ کہا گیا ہے کہ (عورتوں کا مسجد میں جانا) مقید ہے رات کے ساتھ اور جمعہ کی نماز دن کی نماز ہے۔“
◈ الشیخ ابی القاسم البنارسی رحمہ اللہ مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کس لطف سے استنباط کیا ہے کہ اس کے بیان کے لیے میرے پاس زبان نہیں ہے۔۔۔ اثرا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بتلاتے ہیں کہ اس سے عورتوں کے حضور جماعت کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں ثابت ہوتی ہے نہ دن میں اور نماز جمعہ چونکہ دن کو ہوتی ہے لہٰذا اس وقت ان کو حضور مسجد کی اجازت نہیں ہے اور جب ان پر جمعہ نہیں تو غسل بھی نہیں۔ [الخذي العظيم ص8]
◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ کے لیے آنا واجب نہیں ہے جب ان پر جمعہ واجب نہیں تو پھر غسل کا حکم بھی نہیں۔“ [التوضيح، ج8، ص458]
◈ امام ابن المنذر رحمہ اللہ اس بات پر اجماع نقل فرماتے ہیں کہ:
«أجمع أئمة الفتويٰ على أنه لا جمعة على النساء والصبيان» [الاجماع لابن المنذر، ص44]
”تمام ائمہ فتویٰ کا اس پر اجماع ہے کہ جمعہ عورتوں اور بچوں پر فرض نہیں ہے۔“
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«في حديث أبى هريرة رضى الله عنه ”حق على كل مسلم أن يغتسل“ فانه شامل للجميع، والتقييد فى حديث ابن عمر بمن جاء منكم يخرج من لم يجي . . .» [فتح الباري، ج2، ص221]
”یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کا غسل ہر مسلمان پر واجب ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی جمعہ میں حاضر نہ ہو اس پر غسل واجب نہیں اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے پر جمعہ کا غسل واجب نہیں اور عورتوں کو رات کے وقت مسجد میں جانے سے نہ منع کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ جمعہ ان پر واجب نہیں ورنہ رات کی قید لگانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد ترجمۃ الباب سے یہ ہے کہ غسل جمعہ کا صرف اسی شخص کے لیے ہے جس پر جمعہ واجب ہو۔
فائدہ نمبر1:
امام بخاری رحمہ اللہ کا باب قائم کرنا اور اس ضمن میں احادیث کا پیش کرنا ہرگز اس بات کی مانع نہیں کہ عورتیں رات اور فجر کی نماز کے علاوہ دن کی نمازوں میں مسجد نہ جایا کریں کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے ان احادیث میں اس حدیث کو بھی درج کیا ہے۔ «لا تمنعوا اماء الله مساجد الله» ”کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو۔“
یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ عورتیں مسجد آ سکتی ہیں کسی بھی نماز کے لیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود صرف یہ تھا کہ جمعہ ان پر واجب نہیں ورنہ رات کی قید لگانے کو کوئی مضر نہیں ہیں کیوں کہ مطلق احادیث اس مسئلے پر موجود ہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو حدیث ہے کہ ”عورتوں کو رات کی نماز کے لیے اجازت دے دو۔“ تو اس سے یہ مراد ہے کہ اجازت ان کے لیے رات کی نماز میں ہے اور جمعہ اس میں داخل نہیں ہے اور دوسری روایت جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے خلاف ہے (یعنی وہ مقید ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مطلق ہے) کہ ”تم مت روکو اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے۔“ [فتح الباري ج2 ص487]
◈ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے تحت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ عورت کے لیے رات کو مسجد جانا جائز ہے اور اس (کے عموم) میں ہر نماز داخل ہے۔“ [التمهيد ج24 ص281]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں خواتین نماز کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں شارع علیہ السلام نے انہیں ہرگز نہیں روکا اور نہ ہی کسی صحابی نے اپنی خواتین کو مسجد جانے سے روکا بلکہ اگر کوئی روکتا تو وہ اس کی مخالفت کرتے جیسا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا قصہ معروف ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابیات کا مساجدوں میں نماز ادا کرنا:
➊ ”امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھاتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی جاتی تھیں اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں۔“ [صحيح البخاري 868]
➋ سیدہ زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم عورتوں میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز کے لیے مسجد آئے تو خوشبو نہ لگائے۔“ [صحيح مسلم 443]
➌ عورتوں کو مسجدوں سے منع نہ کرو اور انہیں بغیر خوشبو کے سادہ لباس میں جانا چاہیے۔ [مسند أحمد ج2 ص438 ح9645]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں! جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرو۔“ [صحيح ابن خزيمه 1694 سنده صحيح]
➎ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین کو حکم دیا جاتا کہ مردوں سے پہلے (سجدے، رکوع سے) سر نہ اٹھائیں۔ [صحيح ابن حبان 2216]
➏ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی عشاء کے لیے جاتیں مگر عمر رضی اللہ عنہ انہیں روکتے تھے۔ [صحيح البخاري: 900]
➐ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب عورتیں فرض نماز کا سلام پھیریں تو اٹھ کھڑی ہوتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد (صحابہ کرام) بیٹھے رہتے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو صحابہ بھی کھڑے ہو جاتے۔ [صحيح البخاري 866]
➑ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بری صف پہلی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه رقم 624]
➒ ایک خاتون نے نذر مانی تھی کہ اگر اس کا شوہر جیل سے باہر آ گیا تو وہ بصرے کی ہر مسجد میں دو رکعتیں ادا کرے گی۔ [ابن ابي شيبه رقم 7617]
➓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں کسی بچے کی رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔“ [صحيح مسلم 470]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینا مشروع ہے اور انہیں بلاعذر روکنا درست نہیں اگر وہ اجازت مانگیں۔
فائدہ نمبر2:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے لیکن چند شرائط کے ساتھ کہ خواتین کو مطلق انکار کرنا کہ وہ مساجدوں میں نہ جائیں تو یہ درست نہیں ہے کیوں کہ کئی ایک آثار موجود ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورتیں مساجد میں جا سکتی ہیں مطلق فتنہ اور فساد کا نام دے کر اپنے مذہب کی بات کو ثابت کرنا درست نہیں کیوں کہ پہلے مشروع ہونا ثابت ہو گا پھر اس کے بعد اس کی شرائط کا ذکر کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل قرار دی ہے۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ”تم نہ روکو اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے اور ان کے گھر بہتر ہیں ان کے لیے۔
مندرجہ بالا حدیث نے واضح کیا کہ عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے لیکن اس کے باوجود اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو وہ مسجد میں نماز ادا کرنے آ سکتی ہیں۔ مگر چند شرائط کے ساتھ۔
➊ یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا گھر افضل ہے اس کے لیے نماز کے واسطے۔
➋ اپنے خاوند سے اجازت طلب کرے۔
➌ کسی قسم کی کوئی خوشبو عطر وغیرہ کااستعمال ہرگز نہ کریں
➍ اور بغیر کسی خوشبو کے
➎ مردوں کے ساتھ قبار نہ باندھے۔
➏ امام کے سلام پھیرتے ہی عورتیں گھروں کو آ جائیں (یعنی وہاں نہ بیٹھے تاکہ مردوں سے اختلاط سے بچے۔)
➐ راستے میں مردوں سے اختلاط سے بچے۔
➑ راستے کے وسط میں نہ چلے۔
➒ اور اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کی صف آخری صف بہتر ہے۔
➓ وہ عورت حجاب کے ساتھ نکلے۔ ديكهئے تفصيل كے ليے: [الدين الخالص لشيخ امين الله بشاروي، ج5 ص180]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 207
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 568
´عورتوں کے مسجد جانے کا بیان۔`
مجاہد کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دے دیا کرو“، اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں: اس پر انہوں نے (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے) (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے: میں کہتا ہوں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم انہیں اجازت دو“، اور تم کہتے ہو: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 568]
568۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم و استدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
«وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ» [الأحزاب۔ 36]
”کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔“ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق و مزاج عادات و رسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بےمیل ہیں۔ بطور مثال امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے: «إذا صح الحديث فهو مذهبي» [حاشية ابن عابدين: 68/1] ”صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔“
«لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذنا» «الانتقاء فى فضائل الثلاثة الأئمة من الفقهاء، لابن عبدالبر» کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے، جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔
ایک قول کے الفاظ یوں ہیں: «حرام على من لم يعرف دليلي أن يفتني بكلامي»
جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔
ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔
➋ ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ باپردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب و زینت سے مبرا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔ صورت حال واقعتاً خطرناک ہے۔
➌ ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمرہ کے سفر سے نہیں روک سکتا کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔ اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 568
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 707
´عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکنے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت چاہے تو وہ اسے نہ روکے۔“ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 707]
707 ۔ اردو حاشیہ: عورتیں بوڑھی ہوں یا جوان باپردہ ہو کر ہر نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ اگرچہ عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے مگر جماعت کے اپنے فوائد ہیں۔ عورت باپردہ ہو کر جماعت کے وقت کے قریب آئے اور جماعت ختم ہوتے ہی واپس چلی جائے تاکہ مردوں سے اختلاط نہ ہو، سنتیں گھر جاکر پڑھے۔ ان شرائط کے ساتھ عورت اجازت طلب کرے تو شوہر یا ولی کو روکنے کا اختیار نہیں، اسے اجازت دے دینی چاہیے، البتہ اگر غیرمعمولی حالات ہوں، امن و امان ناپید ہو تو پھر صرف نماز ہی نہیں بلکہ باقی کاموں کے لیے بھی باہر جانا جائز نہ ہو گا۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ بیاہ شادی، مرگ و سوگ، میل ملاقات، درباروں اور پیروں کے پاس حاضری، خریداری، الیکشن کے ووٹوں اور باہر زمین کے کام کاج وغیرہ کے لیے عورت جائے تو کوئی ڈر نہیں مگر نماز کے لیے مسجد میں آئے تو فساد کا ڈر ہے۔ احناف صرف بوڑھی عورتوں کو رات کے وقت اجازت دیتے ہیں، مگر کیا وہ باقی امور کے لیے بھی یہ پابندی قائم کریں گے؟ نیز یہ صحابیات کے طرزِ عمل اور حدیث شریف کے بالکل خلاف ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 707
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث16
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو“، تو ان کے ایک بیٹے نے ان سے کہا: ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما سخت ناراض ہوئے اور بولے: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 16]
اردو حاشہ:
(1)
عورتوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں جانا جائز ہے۔
تاہم گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناراضی ذاتی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتی تھی، لیکن کوئی غلط کام ہوتے دیکھ کر یا غلط بات سن کر وہ برداشت نہیں کرتے تھے۔
البتہ غلط کام سے روکنے کے لیے موقع محل کی مناسبت سے مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
(3)
جہاں زجرو توبیخ کے زیادہ مؤثر ہونے کی امید ہو وہاں یہ طریقہ اختیار کرنا بھی جائز ہے۔
(4)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جناب بلال رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ارشاد نبوی کی تعمیل سے انکار نہیں تھا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ آج کل عورتیں گھر سے نکلتے ہوئے ضرروی آداب کا کما حقہ خیال نہیں رکھتیں، اس لیے انہیں اجازت نہیں دینی چاہیے، لیکن ان کے الفاظ چونکہ ظاہری طور پر نامناسب تھے، اس لیے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انتہائی ناراضی کا اظہار فرمایا۔
مسند احمد کی روایت (36/2)
میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے ان سے بات تک نہ کی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 16
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 570
´عورتوں کے مسجد جانے کا بیان۔`
مجاہد کہتے ہیں: ہم لوگ ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس تھے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو“، ان کے بیٹے بلال نے کہا: اللہ کی قسم! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنا لیں گی، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: اللہ تجھے ایسا ایسا کرے، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 570]
اردو حاشہ: 1؎:
احمدکی روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہاکہ میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔
اللہ اکبر!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ قدرتھی نبی اکرمﷺکے احکام اور آپ کی سنت کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 570
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 992
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”رات کو عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔“ تو ان کے ایک بیٹے نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا، ہم ان کو جانے نہیں دیں گے وہ اس کو خرابی اور بگاڑ کا ذریعہ بنا لیں۔ راوی نے کہا: ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے اسے خوب ڈانٹا اور کہا، میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بتاتا ہوں اور تو کہتا ہے ہم انہیں جانے نہیں دیں گے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:992]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
دَغَلٌ:
فساد و بگاڑ،
خیانت،
دھوکا۔
(2)
زَجَرَهُ:
جھڑکا،
ڈانٹ پلائی۔
فوائد ومسائل:
اس دور میں رات کا وقت تاریکی اور ظلمت کا موقع ومحل تھا،
جس میں خرابی اور بگاڑ کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے تو اگر رات کو جانے کی اجازت دی جائےگی تو دن کو تو بالاولیٰ جانے کی اجازت ہو گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 992
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 994
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کو رات کو مسجدوں کی طرف نکلنے کی اجازت دو۔ تو ان کے ایک بیٹے نے کہا، جس کو واقد کہا جاتا ہے تب وہ اس کو خیانت اور فساد کا ذریعہ بنا لیں گی۔ راوی نے بتایا یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے اس کے سینے پر مارا اور کہا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بتا رہا ہوں اور تو کہتا ہے نہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:994]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انکار کا آغاز عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بیٹے بلال نے کہا،
اور واقد نےاس کی تائید کی اور دلیل کے طور پراپنی بات کو پختہ کرنے کے لیے کہا،
(يَتَّخِذْنَهُ دَغَلًا)
اس اجازت کو وہ خرابی اور فساد کا ذریعہ بنا لیں گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 994
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 873
873. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی عورت (مسجد جانے کے لیے) اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:873]
حدیث حاشیہ:
اجازت دے اس لیے کہ بیوی کوئی ہماری لونڈی نہیں ہے بلکہ ہماری طرح وہ بھی آزاد ہے صرف معاہدہ نکاح کی وجہ سے وہ ہمارے ما تحت ہے۔
شریعت محمدی میں عورت اور مرد کے حقوق برابر تسلیم کئے گئے ہیں اب اگر اس زمانہ کے مسلمان اپنی شریعت کے برخلاف عورتوں کو قیدی اور لونڈی بنا کر رکھیں تو اس کا الزام ان پر ہے نہ کہ شریعت محمدی پر۔
جن پادریوں نے شریعت محمدی کو بدنام کیا ہے کہ اس شریعت میں عورتوں کو مطلق آزادی نہیں، یہ ان کی نادانی ہے۔
(مولانا وحید الزماںمرحوم)
حنفیہ کے ہاں مساجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا درست نہیں ہے، اس سلسلہ میں ان کی بڑی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
قالت لوأدرك النبي صلی اللہ علیه وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بني إسرائیل أخرجه الشیخان۔
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو پا لیتے جو آج عورتوں نے نئی ایجاد کر لی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مساجد سے منع فرمادیتے۔
جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔
اس کے جواب میں المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارک پوری ؒ اپنی مشہور کتاب ابکار المنن فی تنقید آثار السنن، ص: 101پر فرماتے ہیں:
لَا يَتَرَتَّبُ عَلَى ذَلِكَ تَغَيُّرُ الْحُكْمِ لِأَنَّهَا عَلَّقَتْهُ عَلَى شَرْطٍ لَمْ يُوجَدْ بِنَاءً عَلَى ظَنٍّ ظَنَّتْهُ فَقَالَتْ لَوْ رَأَى لَمَنَعَ فَيُقَالُ عَلَيْهِ لَمْ يَرَ وَلَمْ يَمْنَعْ فَاسْتَمَرَّ الْحُكْمُ حَتَّى أَنَّ عَائِشَةَ لَمْ تُصَرِّحْ بِالْمَنْعِ وَإِنْ كَانَ كَلَامُهَا يُشْعِرُ بِأَنَّهَا كَانَتْ تَرَى الْمَنْعَ وَأَيْضًا فَقَدْ عَلِمَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مَا سَيُحْدِثْنَ فَمَا أَوْحَى إِلَى نَبِيِّهِ بِمَنْعِهِنَّ وَلَوْ كَانَ مَا أَحْدَثْنَ يَسْتَلْزِمُ مَنْعَهُنَّ مِنَ الْمَسَاجِدِ لَكَانَ مَنْعُهُنَّ مِنْ غَيْرِهَا كَالْأَسْوَاقِ أَوْلَى وَأَيْضًا فَالْإِحْدَاثُ إِنَّمَا وَقَعَ مِنْ بَعْضِ النِّسَاءِ لَا مِنْ جَمِيعِهِنَّ فَإِنْ تَعَيَّنَ الْمَنْعُ فَلْيَكُنْ لِمَنْ أَحْدَثَتْ قاله الحافظ في فتح الباري۔
(ج: 1 ص: 471)
وقال فیه والأولی أن ینظر إلی ما یخشی منه الفساد فیجتنب لإشارته صلی اللہ علیه وسلم إلی ذلك بمنع التطیب والزینة وکذلك التقیید باللیل انتھی۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ اس قول عائشہ کی بنا پر مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم متغیر نہیں ہو سکتا اس لیے کہ حضرت عائشہ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق فرمایا وہ پائی نہیں گئی۔
انہوں نے یہ گمان کیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو منع فرمادیتے۔
پس کہا جا سکتا ہے کہ نہ آپ نے دیکھا نہ منع فرمایا پس حکم نبوی اپنی حالت پر جاری رہا یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگر چہ ان کے کلام سے منع کے لیے اشارہ نکلتا ہے اور یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ عورتوں میں کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے مگر پھر بھی اللہ پا ک نے اپنے رسول کریم ﷺ کی طرف عورتوں کو مساجد سے روکنے کے بارے میں وحی نازل نہیں فرمائی اور اگر عورتوں کی نئی نئی باتوں کی ایجاد پر ان کو مساجد سے روکنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی ان کو ضرور ضرور منع کیا جاتا اور یہ بھی ہے کہ نئے نئے امور کا احداث بعض عورتوں سے وقوع میں آیا نہ سب ہی سے۔
پس اگر منع کرنا ہی متعین ہوتا تو صرف ان ہی عورتوں کے لیے ہونا تھا جو احداث کی مرتکب ہوتی ہوں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ایسا فرمایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ان امور پر غور کیا جائے جن سے فساد کا ڈر ہو پس ان سے پرہیز کیا جائے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ عورتوں کے لیے خوشبو استعمال کر کے یا زیب وزینت کر کے نکلنا منع ہے، اسی طرح رات کی بھی قید لگائی گئی۔
مقصد یہ کہ حنفیہ کا قول عائشہ ؓ کی بنا پر عورتوں کو مساجد سے روکنا درست نہیں ہے اور عورتیں قیود شرعی کے تحت مساجد میں جاکر نماز با جماعت میں شرکت کر سکتی ہیں۔
عیدگاہ میں ان کی حاضری کے لیے خصوصی تاکید ہوئی ہے جیسا کہ اپنے مقام پر مفصل بیان کیا گیا ہے۔
عورات بنی اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں:
قلت منع النساءالمساجد کان في بني إسرائیل ثم أباح اللہ لھن الخروج إلی المساجد لأمة محمد صلی اللہ علیه وسلم ببعض القیود کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا استاذنتکم النساء باللیل إلی المساجد فاذنوا لھن وقال لا تمنعوا إماءاللہ مساجد اللہ الخ (حوالہ مذکور)
یعنی میں کہتا ہوں کہ عورتوں کو بنی اسرائیل کے دور میں مساجد سے روک دیا گیا تھا پھر امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں اسے بعض قیود کے ساتھ مباح کر دیا گیا جیسا کہ فرمان رسالت ہے کہ رات میں جب عورتیں تم سے مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں تو تم ان کو اجازت دے دو اور فرمایا کہ اللہ کی مساجد سے اللہ کی بندیوں کو منع نہ کرو۔
جیسا کہ یہاں امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
بخاری شریف میں عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی مرویات بکثرت آئی ہیں اس لیے مناسب ہوگا کہ قارئین کرام کو ان بزرگوں کے مختصر حالات زندگی سے واقف کرا دیا جائے تا کہ ان حضرات کی زندگی ہمارے لیے بھی مشعل راہ بن سکے یہاں بھی متعدد احادیث ان حضرات سے مروی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ! حضور نبی کریم ﷺ کے چچازاد بھائی تھے والدہ گرامی کا نام ام فضل لبابہ اور باپ کانام حضرت عباس ؓ تھا۔
ہجرت سے صرف تین سال پیشتر اس احاطہ میں پیدا ہوئے جہاں حضور نبی کریم ﷺ اپنے تمام خاندان والوں کے ساتھ قید محن میں محصور تھے۔
آپ کی والدہ گرامی بہت پیشتر ایمان لا چکی تھیں اور گو آپ کا اسلام لانا فتح مکہ کے بعد کا واقعہ بتایا جاتا ہے تاہم ایک مسلم ماں کی آغوش میں آپ اسلام سے پوری طرح مانوس ہو چکے تھے اور پیدا ہوتے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن آپ کے منہ میں پڑچکاتھا۔
بچپن ہی سے آپ کو حضور نبی کریم ﷺ سے استفاضہ وصحبت کا موقع ملا اور اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کے یہاں آتے اور حضور ﷺ کی دعائیں لیتے رہے، اسی عمر میں کئی بار حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔
ابھی تیرہ ہی سال کے تھے کہ حضور ﷺ نے رحلت فرمائی۔
عہد فاروقی میں سن شباب کو پہنچ کر اس عہد کی علمی صحبتوں میں شریک ہوئے اور اپنے جوہر دماغی کا مظاہرہ کرنے لگے۔
حضرت عمر ؓ آپ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے اور برابر ہمت افزائی کرتے پیچیدہ مسائل حل کراتے اور ذہانت کی داد دیتے تھے۔
17ھ میں یہ عالم ہو گیا تھا کہ جب مہم مصرمیں شاہ افریقہ جرجیہ سے مکالمہ ہوا تو وہ آپ کی قابلیت علمی دیکھ کر متحیر رہ گیا تھا۔
25 ھ میں آپ امیر الحج بنا کر مکہ معظمہ بھیجے گئے اور آپ کی عدم موجودگی ہی میں حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کا واقعہ ہائلہ پیش آگیا۔
علم وفضل میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔
ایک وحید العصر اور یگانہ روزگار ہستی تھے۔
قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، شاعری آیات قرآنی کے شان نزول اور ناسخ منسوخ میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔
ایک دفعہ شقیق تابعی کے بیان کے مطابق حج کے موقع پر سورۃ نور کی تفسیر جو بیان کی وہ اتنی بہتر تھی اگر اسے فارس اور روم کے لوگ سن لیتے تو یقینااسلام لے آتے (مستدرك حاکم)
قرآن کریم کے فہم میں بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے۔
تفسیر میں آپ ہمیشہ جامع اور قرین عقل مفہوم کو اختیار کرتے تھے۔
سورۃ کوثر میں لفظ کوثر کی مختلف تفاسیر کی گئیں مگر آپ نے اسے خیر کثیر کے مفہوم سے تعبیر کیا۔
قرآن کریم کی آیت پاک ﴿لَا تَحسَبَنَّ الَّذِینَ یَفرَحُونَ بِمَا اَتَوا﴾ (آل عمران: 188)
الخ یعنی”جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور جونہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
“ یہ چیز فطرت انسانی کے خلاف ہے اور بہت کم لوگ اس جذبہ سے خالی نظر آتے ہیں۔
مسلمان اس پر پریشان تھے۔
آخر مروان نے آپ کو بلا کر پوچھا کہ ہم میں سے کون ہے جو اس جذبہ سے خالی ہے۔
فرمایا ہم لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
نیز بتایا یہ ان اہل کتاب کے متعلق ہے جن سے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی امر کے متعلق استفسار کیا، انہوں نے اصل بات کو جو ان کی کتاب میں تھی، چھپا کر ایک فرضی جواب دے دیا اور اس پر خوشنودی کے طالب ہوئے اور اپنی اس چالاکی پر مسرور ہوئے۔
ہمارے نزدیک عام طور پر اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جو لوگ خفیہ طور پر درپے آزار رہتے ہیں بظاہر ہمدرد بن کر جڑیں کاٹتے رہتے ہیں اور منہ پر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں خدمت کی،فلاں احسان کیا اور اس پر شکریہ کے طالب ہوتے ہیں اور اپنی چالاکی پر خوش ہوتے اور دل میں کہتے ہیں کہ خوب بے وقوف بنایا وہ لوگ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتے کہ یہ ایک فریب ہے۔
علم حدیث کے بھی اساطین سمجھے جاتے تھے۔
1660حادیث آپ سے مروی ہیں۔
عرب کے گوشہ میں پہنچ کر خرمن علم کا انبار لگا لیا۔
فقہ وفرائض میں بھی یگانہ حیثیت حاصل تھی۔
ابوبکر محمد بن موسیٰ (خلیفہ مامون رشید کے پوتے)
نے آپ کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے تھے۔
علم فرائض اور حساب میں بھی ممتاز تھے۔
عربوں میں شاعری لازمہ شرافت سمجھی جاتی تھی بالخصوص قریش کی آتش بیانی تو مشہور تھی۔
آپ شعر گوئی کے ساتھ فصیح بھی تھے۔
تقریر اتنی شیریں ہوتی تھی کہ لوگوں کی زبان سے بے ساختہ مرحبا نکل جاتا تھا۔
غرض یہ کہ آپ اس عہد کے جملہ علوم کے منتہی اور فاضل اجل تھے۔
آپ کا مدرسہ یا حلقہ درس بہت وسیع اور بہت مشہور تھااور دوردور سے لوگ آتے اور اپنی دلچسپی اور مذاق کے مطابق مختلف علوم کی تحصیل کرتے۔
مکان کے سامنے اتنا اژدھام ہوتا تھا کہ آمد ورفت بند ہو جاتی تھی۔
ابو صالح تابعی کا بیان ہے کہ آپ کی علمی مجلس وہ مجلس تھی کہ اگر سارا قریش اس پر فخر کرے تو بھی بجا ہے، ہر فن کے طالب وسائل باری باری آتے اور آپ سے تشفی بخش جواب پاکر واپس لوٹتے۔
واضح رہے کہ اس وقت تک کتابی تعلیم کا رواج نہ ہوا تھااور نہ کتابیں موجود تھیں، علوم وفنون کا انحصار محض حافظہ پر تھا۔
خدا نے اس عہد کی ضرورتوں کے مطابق لوگوں کے حافظے بھی اتنے قوی کر دیئے تھے کہ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ایک ایک شخص کو دس دس بیس بیس ہزار احادیث اور اشعار کا یاد کر لینا تو ایک عامۃ الورود واقعہ تھا، سات سات اور آٹھ آٹھ لاکھ احادیث کے حافظ موجود تھے۔
جنہیں حافظہ کے ساتھ فہم ذہانت سے بھی حصہ ملا تھا۔
وہ مطلع انوار بن جاتے تھے۔
آج دو ہزار احادیث کے حافظ بھی بمشکل ہی کہیں نظر آتے ہیں اور ہمیں اس زمانے کے بزرگوں کے حافظہ کی داستانیں افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔
سفرو حضر ہر حالت میں فیض رسانی کا سلسلہ جاری تھا اور طالبان ہجوم کا ایک سیلاب امنڈا رہتا تھا۔
نومسلموں کی تعلیم وتلقین کے لیے آپ نے مخصوص ترجمان مقرر کر رکھے تھے تاکہ انہیں اپنے سوال میں زحمت نہ ہو ایران وروم تک سے لوگ جوق در جوق چلے آتے تھے، تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی اور ان میں کثرت ان بزرگوں کی تھی جو حافظہ کے ساتھ ساتھ فہم وفراست اور ذہانت کے بھی حامل تھے۔
علمی مذاکروں کے دن مقرر تھے۔
کسی روز واقعات مغازی کا تذکرہ کرتے۔
کسی دن شعروشاعری کا چرچہ ہوتا۔
کسی روز تفسیر قرآن پر روشنی ڈالتے۔
کسی روز فقہ کا درس دیتے۔
کسی روز ایام عرب کی داستان سناتے۔
بڑے سے بڑا عالم بھی آپ کی صحبت میں بیٹھتا، اس کی گردن بھی آپ کے کمال علم کے سامنے جھک جاتی۔
تمام جلیل القدر اور ذی مرتبہ صحابہ کرام کو آپ کی کم سنی کے باوجود آپ کے فضل وعلم کا اعتراف تھا۔
جضرت فاروق اعظم آپ کے ذہن رسا کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے۔
حضرت طاؤس یمانی فرمایا کرتے تھے میں نے پانچوں صحابہ کو دیکھا۔
ان میں جب کسی مسئلہ پر اختلاف ہوا تو آخر ی فیصلہ آپ ہی کی رائے پر ہوا۔
حضرت قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کا فتوی سنت نبوی کے مشابہ نہیں دیکھا۔
حضرت مجاہد تابعی کہا کرتے تھے کہ ہم نے آپ کے فتاویٰ سے بہتر کسی شخص کا فتوی نہیں دیکھا۔
ایک بزرگ تابعی کا بیان ہے کہ میں نے آپ سے زیادہ سنت کا عالم، صائب الرائے اور بڑا دقیق النظر کسی کو نہیں پایا۔
حضرت ابی بن کعب بھی بہت بڑے تھے۔
انہوں نے ابتدا ہی میں آپ کی ذہانت وطباعی دیکھ کر فرمایا تھا کہ ایک روز یہ شخص امت کا زبردست عالم اور منتہی فاضل ہوگا۔
تمام معاصرین آپ کی حد درجہ عزت کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ سوار ہونے لگے تو حضرت زید بن ثابت نے پہلے توآپ کی رکاب تھام لی اور پھر بڑھ کر ہاتھ چومے۔
حضور نبی کریم ﷺ کی ذات کریم سے غیر معمولی شیفتگی وگرویدگی حاصل تھی۔
جب حضور کی بیماری کی کرب اور وفات کی حالت یاد ہوتی بے قرار ہو جاتے۔
روتے اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔
بچپن ہی سے خدمت نبوی میں مسرت حاصل ہونے لگی اور خودحضور بھی آپ سے خدمت لے لےا کرتے تھے۔
احترام کی یہ حالت تھی کہ کم سنی کے باوجود نماز میں بھی آپ کے برابر کھڑا ہونا گستاخی تصور کرتے تھے اور بے حد ادب ملحوظ رکھتے تھے۔
امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ بھی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی تھی خدا وند ابن عباس کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔
ایک مرتبہ اور آپ کے ادب سے خوش ہو کر آپ کے لیے فہم وفراست کی دعا عطا فرمائی۔
یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ جوان ہو کر سرآمدروزگار بن گئے اور مطلع اخلاق روشن ہوگیا۔
صحابہ کے آخرزمانہ میں نو مسلم عجمیوں کے ذریعہ سے خیر وشراور قضا وقدر کی بحث عراق میں پیدا ہو چکی تھی۔
آپ نابینا ہو چکے تھے مگر جب معلوم ہوا کہ ایک شخص تقدیر کا منکر ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کے پاس لے چلو۔
عرض کی کیا کروگے؟ فرمایا ناک کاٹ لوں گا اور گردن ہاتھ میں آگئی تو اسے توڑ دوں گا کیونکہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے سنا کہ ”تقدیر کا انکار اس امت کا پہلا شرک ہے“ میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایسے لوگوں کی بری رائے یہیں تک محدود نہ رہے گی بلکہ جس طرح انہوں نے خدا کو شر کی تقدیر سے معطل کر دیا ہے۔
اسی طرح اس کی خیر کی تقدیر سے بھی منکر ہو جائیں گے۔
یوں تو آپ کی زندگی کا ہر شعبہ اہم ودلکش ہے لیکن جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی طرف سے برائی و مخاصمت کا ظہور اس کی حقیقی عظمت اور خوبیوں کے اعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے خلافت کا دعوی کیا اور آپ کو بھی اپنی بیعت پر مجبور کر نے کی سعی کی، اس زور وشور کے ساتھ کہ جب آپ نے اس سے انکار کیا تو یہی نہیں کہ آپ کو زندہ آگ میں جلا ڈالنے کی دھمکی دی بلکہ آپ کے کاشانہ معلی کے ارد گرد خشک لکڑیوں کے انبار بھی اسی مقصد سے لگوادیئے اور بمشکل آپ کی جانبری ہو سکی۔
اس سے بھی زیادہ یہ کہ انہی کی بدولت جوار حرم چھوڑ کر آپ کو طائف نقل وطن کرنا پڑی۔
ظاہر ہے کہ یہ زیادتیاں تھیں اور آپ کو ان کے ہاتھ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی تھی لیکن جب ابن ملیکہ نے آپ سے کہا ہے کہ لوگوں نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت شروع کر دی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے اندر آخر وہ کون سی خوبیاں اور مفاخر ہیں جن کی بنا پر انہیں ادعائے خلافت کی جرات ہوئی ہے اور اتنے بڑے حوصلہ سے کام لیا ہے۔
فرمایا:
“یہ تم نے کیاکہا۔
ابن زبیر ؓ سے زیادہ مفاخر کا حامل کون ہو سکتا ہے۔
باپ وہ ہیں جو حواری رسول کے معزز لقب سے ملقب تھے۔
ماں اسماءذات النطاق تھیں۔
نانا وہ ہیں جن کا اسم گرامی ابو بکر ؓ اور''لقب'' رفیق غار ہے۔
ان کی خالہ حضور ﷺ کی محبوب ترین زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ تھیں اور ان کے والد محترم کی پھوپھی ام المؤمنین حضرت بی بی خدیجہ ؓ حرم محترم رسول اکرم تھیں اور دادی حضرت صفیہ خود حضور نبی کریم ﷺ کی پھوپھی تھیں، یہ تو ہیں ان کے خاندانی مفاخر۔
ذاتی حیثیت سے بہت بلند اور بے حد ممتاز ہیں، قاری قرآن ہیں، بے مثل بہادر اور عدیم النظیر مدبر ہیں، وہاۃ العرب میں سے ہیں۔
بہت پاکباز ہیں۔
ان کی نماز یں پورے خشوع وخضوع کی نمازیں ہیں۔
پھر ان سے زیادہ خلافت کا مستحق کون ہو سکتا ہے، وہ کھڑے ہوئے ہیں اور بجا طور پر کھڑے ہوئے ہیں، ان کا بیعت لینا بجا ہے، خدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو یہ ایک عزیزانہ احسان ہوگا اور میری پرورش کریںگے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔
67 ھ میں آپ نے وفات پائی۔
انتقال کے وقت آیات کریمہ ﴿یٰاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّة﴾ (الفجر: 27)
کے مصداق ہوئے رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ! حضرت فاروق اعظم کے یگانہ روزگار صاحبزادے اور اپنے عہد کے زبردست جید عالم تھے۔
باپ کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر صرف پانچ سال تھی۔
زمانہ بعثت کے دوسرے سال کتم عدم سے پردہ وجود پر جلوہ افروز ہوئے۔
ہوش سنبھالا تو گھر کے دروبام اسلام کی شعاعوں سے منور تھے۔
باپ کے ساتھ غیر شعوری طور پر اسلام قبول کیا۔
چونکہ مکہ میں ظلم وطغیانی کی گرج برابر بڑھتی جا رہی تھی اس لیے اپنے خاندان والوں کے ساتھ آپ بھی ہجرت کر گئے۔
تیرہ برس ہی کی عمرتھی کہ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کم سنی کی وجہ سے واپس کر دیئے گئے۔
اگلے سال غزوہ احد میں بھی اسی بنا پر شریک نہ کئے گئے۔
البتہ پندرہ سال کی عمر ہوجانے پر غزوہ احزاب میں ضرور شریک ہوئے جو 5 ھ میں وقوع پذیر ہواتھا۔
6ھ میں بیعت رضوان کا بھی شرف حاصل کیا۔
غزوہ خیبر میں بھی بڑی جانبازی کے ساتھ لڑے۔
اسی سفر میں حلال وحرام کے متعلق جو احکام دربار رسالت سے صادر ہوئے تھے آپ ان کے راوی ہیں۔
اس کے بعد فتح مکہ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف میں بھی شریک رہے۔
غزوہ تبوک میں جارہے تھے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حجر کی طرف سے گزرتے ہوئے جہاں قدیم عاد وثمود کی آبادیوں کے کھنڈرات تھے، فرمایا کہ:
”ان لوگوں کے مساکن میں داخل نہ ہو جنہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے اپنے اوپر ظلم کیا کہ مبادا تم بھی اس عذاب میں مبتلا ہو جاؤ جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے اور اگر گزرنا ہی ہے تو یہ کرو کہ خوف خدا اور خشیت الٰہی سے روتے ہوئے گزرجاؤ۔
“ جوش جہاد!عہد فاروقی میں جو فتوحات ہوئیں اس میں آپ سپاہیانہ حیثیت سے برابر لڑتے رہے، جنگ نہاوند میں بیمار ہوئے تو آپ نے ازخود یہ کیا”پیاز کو“ دوا میں پکاتے تھے اور جب اس میں پیاز کا مزہ آجاتا تھا تو اسے نکال کر دواپی لیتے تھے۔
غالباً پیچش کا مرض لاحق ہوگیا ہو گا۔
شام ومصر کی فتوحات میں بھی مجاہدانہ حصے لیتے رہے۔
لیکن انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی موقع نہ ملا کہ حضرت فاروق اعظم اپنے خاندان وقبیلہ کے افراد کو الگ رکھتے رہے۔
عہد عثمانی میں آپ کی قابلیت کے مدنظر آپ کو عہد قضا پیش کیا گیا لیکن آپ نے یہ فرماکر انکار کر دیا کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں جاہل، عالم مائل الی الدنیا کہ یہ دونوں جہنمی ہیں۔
تیسرے وہ ہیں جو صحیح اجتہاد کرتے ہیں انہیں نہ عذاب ہے نہ ثواب اور صاف کہہ دیا کہ مجھے کہیں عامل نہ بنائیے اس کے بعد امیر المومنین نے بھی اصرار نہ کیا البتہ اس عہد کے معرکہ ہائے جہاد میں ضرور شریک ہوتے رہے۔
تیونس،الجزائر، مراکش، خراسان اور طبرستان کے معرکوں میں لڑے۔
جس قدر اصب اور عہدوں کی قبولیت سے گھبراتے تھے جہادوں میں اسی قدر جوش وخروش اور شوق ودل بستگی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔
آخر عہد عثمانی میں جو فتنے رونما ہوئے آپ ان سے بالکل کنارہ کش رہے۔
ان کی شہادت کے بعد آپ کی خدمت میں خلافت کا اعزاز پیش کیا اور عدم قبولیت کے سلسلے میں قتل کی دھمکی دی گئی لیکن آپ نے فتنوں کے نشو وارتقا کے پیش نظر اس عظیم الشان اعزاز سے بھی انکار کر دیااور کوئی اعتنا نہ کی۔
اس کے بعد آپ نے اس شرط پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ وہ خانہ جنگیوں میں کوئی حصہ نہ لیں گے۔
چنانچہ جنگ جمل وصفین میں شرکت نہ کی۔
تاہم متاسف تھے اور کہا کرتے تھے کہ:
”گو میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا لیکن حق پر مقابلہ بھی افضل ہے“ (مستدرك)
فیصلہ ثالثی سننے کے لیے دومۃ الجندل میں تشریف لے گئے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد امیرمعاویہ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور شوق جہاد میں اس عہد کے تمام معرکوں میں نیز مہم قسطنطنیہ میں شامل ہوئے۔
یزید کے ہاتھ پر فتنہ اختلاف امت سے دامن بچائے رکھنے کے لیے بلا تامل بیعت کر لی اور فرمایا یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی ہیں اور اگر یہ شر ہے تو ہم نے صبر کیا۔
آج کل لوگ فتنوں سے بچنا تو درکنار اپنے مقاصد ذاتی کے لیے فتنے پیدا کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کے جسم پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔
پھر یہ بیعت حقیقتاً نہ کسی خوف کی بنا پر تھی اور نہ آپ کسی لالچ میں آئے تھے۔
طنطنہ اور حق پرستی کا یہ عالم تھا کہ امر حق کے مقابلہ پر کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 873
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5238
5238. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کے لیے اجازت طلب کرے تو وہ (خاوند) اسے نہ روکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5238]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عورتیں مساجد میں با اجازت شوہر پردے کے ساتھ نماز کے لئے جا سکتی ہیں قال ابن التین ترجم بالخروج إلی المسجد و غیرہ و اقتصر في الباب علی حدیث المسجد و أجاب الکرماني بأنه قاس منعه علیه و الجامع بنھي ظاھر و یشترط في الجمیع أمن الفتنة و نحوہ (فتح الباری)
یعنی ابن تین نے کہا کہ حضرت امام نے مسجد اور علاوہ مسجد کی طرف عورت کے نکلنے کا باب باندھا ہے اور حدیث وہ لائے ہیں جس میں صرف مسجد ہی کا ذکر ہے۔
کرمانی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ علاوہ مسجد کو مسجد ہی کے اوپر قیاس کر لیا ہے۔
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے اور عورت کے مساجد وغیرہ کی طرف نکلنے کے لئے امن کا ہونا شرط ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5238
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:865
865. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند آپ کو پکارا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”اہل زمین میں سے تمہارے علاوہ کوئی بھی اس نماز کا منتظر نہیں ہے۔“ ان دنوں مدینہ کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اور لوگ سرخی غائب ہونے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:865]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث سے عورتوں کے لیے رات اور اندھیرے کے وقت مساجد میں جانے کا جواز بتایا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس جواز کو عدم فتنہ سے مقید کر رہے ہیں کیونکہ رات کا وقت اور اندھیرا فتنوں سے محفوظ رہنے کا سبب بنتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردوں کی طرف سے عورتوں کے لیے فتنے کا خوف ہو یا عورتوں کی طرف سے مردوں کے لیے ابتلا کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو مساجد کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی اپنی پہلی حدیث بیان کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عورتیں مسجد میں نماز عشاء پڑھنے کے لیے آتی تھیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا تھا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔
دوسری حدیث میں بھی رات کی قید موجود ہے اور جن روایات میں رات کی قید نہیں ہے انہیں بھی اس پر محمول کیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رات کا وقت خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں عورتوں کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہوتی ہے۔
یہ بھی اس وقت ہے جب فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔
(فتح الباري: 2/449،448)
صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی تو ان کے بیٹے واقد نے کہا کہ عورتیں اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے اپنی مطلب برآوری کا ذریعہ بنا لیں گی۔
اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس کے سینے پر گھونسا مارا اور فرمایا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس سے انکار کرتا ہے! بعض احادیث میں بیٹے کا نام بلال بتایا گیا ہے۔
صحیح مسلم میں اسی طرح کا بیان کردہ ایک اور واقعہ ہے جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ جب تمہاری عورتیں اجازت طلب کریں تو مسجد میں ان کے لیے خیروبرکت کا جو حصہ رکھا ہے اسے مت روکو۔
ان کے بیٹے بلال نے کہا کہ ہم تو ضرور روکیں گے۔
ایک روایت میں ہے کہ میں تو اپنی بیوی کو نہیں جانے دوں گا، اگر کوئی دوسرا انہیں کھلا چھوڑ دے تو اس کی مرضی۔
اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت برا بھلا کہا اور اس پر تین دفعہ لعنت کی بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے زندگی بھر گفتگو نہیں کی۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 995،994،992،988 (442)
، وفتح الباري: 449/2) (2)
حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے ایک متابعت بیان کی ہے کہ حضرت شعبہ نے یہ حدیث بیان کرنے میں عبیداللہ بن موسیٰ شیخ بخاری کی متابعت کی ہے۔
اسے امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(عمدة القاري: 847/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 865
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:873
873. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی عورت (مسجد جانے کے لیے) اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:873]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو مسجد میں جانے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔
اسے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ نماز ادا کرنا تو اللہ کا حق ہے اس میں شوہر سے اجازت لینے کی کیا ضرورت۔
اگر حالات ناساز گار ہوں یا فتنے فساد کا اندیشہ ہو تو خاوند اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے روک بھی سکتا ہے۔
اگرچہ اس روایت میں مسجد جانے کا ذکر نہیں لیکن علامہ اسماعیلی نے جب اس روایت کو اسی سند سے بیان کیا ہے تو اس میں مسجد کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
(فتح الباری: 484/2) (2)
اجازت لینے کا معاملہ صرف مسجد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عورت کو چاہیے کہ وہ عیدین اور اپنے کسی عزیز کی قبر کی زیارت کے لیے بھی اپنے شوہر سے اجازت لے، جب مباح اور جائز کاموں میں اجازت لینا ضروری ہے تو فرائض و مستحبات کی ادائیگی بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہیے، مثلاً:
ادائے شہادت یا فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے باہر جانا یا اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی ملاقات کے لیے جانا، یہ سب کام خاوند کی اجازت پر موقوف ہیں۔
(عمدة القاري: 653/4)
۔
۔
تنبیہ:
محمد فواد کے نسخے میں اس جگہ سابقہ باب:
(164)
اپنی دونوں حدیثوں (870 اور 871)
کی نئی ترقیم: 874 اور 875 کے ساتھ مکرر لایا گیا ہے، جبکہ اصل نسخے میں یہ تکرار نہیں ہے، اس لیے اس تکرار کو ہم نے حذف کر دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 873
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:900
900. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ سیدنا عمر ؓ کی زوجہ محترمہ فجر اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں جاتیں اور جماعت میں شریک ہوتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ تم باہر کیوں نکلتی ہو جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ سیدنا عمر ؓ کو یہ ناگوار گزرتا ہے اور انہیں اس پر غیرت آتی ہے؟ زوجہ محترمہ نے جواب دیا کہ وہ مجھے روکتے کیوں نہیں ہیں، ان کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان باعث رکاوٹ ہے: ”اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:900]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ اللہ عورتوں کے رات کے وقت نماز کے لیے مسجد میں جانے سے متعلق اس حدیث کو ادنیٰ تعلق اور معمولی مناسبت کی وجہ سے لائے ہیں۔
مفہوم موافق کی بنا پر یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر عورتیں جمعہ کے لیے گھروں سے نکلیں تو وہ بدرجۂ اولیٰ جائز ہو گا کیونکہ رات کی نسبت دن کا وقت فتنوں سے امن کا ہے، البتہ احناف نے مفہوم مخالف کی بنا پر اس حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ رات کی قید سے جمعہ کی شرکت خارج ہو گئی کیونکہ رات کے وقت تو فسق و فجور والے اپنی بدکرداری میں مصروف ہوتے ہیں اور دن میں انہیں کام نہیں ہوتا، اس لیے وہ آزادی سے گھومتے ہیں اور عورتوں کا تعاقب کر کے ان کے لیے فتنے کا باعث بنتے ہیں۔
ان حضرات کا موقف اس لیے غلط ہے کہ فساق کا فتنہ دن کے وقت بہت کم ہوتا ہے، نیز دوسرے لوگوں کی وجہ سے وہ چھیڑ چھاڑ کی جراءت نہیں کر سکیں گے۔
(2)
حضرت عمر ؓ کی زوجۂ محترمہ کا نام عاتکہ بنت زید تھا جو حضرت سعید بن زید ؓ کی ہمشیرہ تھیں۔
یہ پابندی کے ساتھ نماز عشاء اور نماز فجر مسجد میں باجماعت ادا کرتی تھیں، حتیٰ کہ جب حضرت عمر ؓ مسجد میں زہر آلود خنجر سے زخمی ہوئے تو ان کی مذکورہ بیوی مسجد ہی میں تھیں۔
اگرچہ حضرت عمر ؓ کو ان کا مسجد میں آنا ناگوار تھا لیکن انہیں منع نہیں کرتے تھے۔
(فتح الباري: 493/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 900
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5238
5238. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کے لیے اجازت طلب کرے تو وہ (خاوند) اسے نہ روکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5238]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں شوہر کی اجازت سے مساجد میں پردے کے ساتھ نماز کے لیے جا سکتی ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مسجد اور غیر مسجد کی طرف جانے کا عنوان قائم کیا جبکہ حدیث میں صرف مساجد کے متعلق لائے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
غیر مسجد کو مسجد پر قیاس کیا ہے لیکن اس کے لیے بھی حالات کا سازگار اور پر امن ہونا شرط ہے۔
(2)
بازار میں جانے کے لیے اس وقت رخصت ہو گی جب اسے شرعی ضرورت کے تحت کوئی حاجت ہو۔
بلا وجہ تفریح کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5238