Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
149. بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ:
باب: (تشہد کے بعد) سلام پھیرنے سے پہلے کی دعائیں۔
حدیث نمبر: 834
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ:" قُلْ، اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے یزید بن ابی حبیب سے بیان کیا، ان سے ابوالخیر مرثد بن عبداللہ نے ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے، ان سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت،‏‏‏‏ فاغفر لي مغفرة من عندك،‏‏‏‏ وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنی جان پر (گناہ کر کے) بہت زیادہ ظلم کیا پس گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بیشک وشبہ تو ہی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 834 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:834  
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث کی عنوان سے مطابقت دو طرح سے ہے:
٭ قرینہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مذکورہ استعاذہ تشہد کے بعد پڑھنا چاہیے جیسا کہ علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں:
نماز کے ہر مقام کے لیے ذکر و دعا مخصوص ہے تو مذکورہ استعاذہ تمام ارکان سے فراغت کے بعد ہو گا کیونکہ نماز کے چار مقام زیادہ اہم ہیں:
قیام، رکوع، سجدہ اور تشہد۔
قیام میں قراءت ہوتی ہے، رکوع اور سجدہ کے لیے تسبیحات اور دعائیں مخصوص ہیں، تشہد کے لیے یہ استعاذہ ہے جو سلام سے قبل پڑھا جاتا ہے۔
٭ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن طاؤس اپنے باپ طاؤس سے بیان کرتے ہیں کہ وہ تشہد کے بعد استعاذہ پڑھا کرتے تھے۔
پھر وہ حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً بیان کرتے تھے۔
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے پناہ مانگے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1324 (588) (2)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے تشہد کے بعد پسندیدہ دعا پڑھنے کا اختیار دیا ہے تو ممکن ہے کہ انہوں نے اسی وقت آپ سے سوال کیا ہو اور آپ نے مذکورہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہو۔
(فتح الباري: 414/2)
ان ادعیہ کے علاوہ بھی دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد کے بعد سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھتے تھے:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ)
اے اللہ! تو میرے اگلے، پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہ معاف کر دے اور جو میں نے زیادتی کی اور وہ گناہ جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے وہ بھی معاف فرما۔
تو ہی آگے کرنے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1821 (771)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 834   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1303  
´دعا کی ایک اور قسم کا بیان۔`
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جس کے ذریعہ میں اپنی نماز میں دعا مانگا کروں، تو آپ نے فرمایا: کہو: «اللہم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! بیشک میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے، اور سوائے تیرے گناہوں کو کوئی بخش نہیں سکتا، لہٰذا تو اپنی خاص مغفرت سے مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم کر، یقیناً تو غفور و رحیم یعنی بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1303]
1303۔ اردو حاشیہ:
➊ ہر انسان پر تقصیر ہے، لہٰذا اپنے قصور کا اعتراف کرتے رہنا چاہیے، خواہ علم ہو یا نہ۔ بندے کی شان یہی ہے، خواہ صدیق ہی ہو، نیز یہ دعا تو ہر امتی کے لیے ہے۔ ظلم کثیر سے مراد گناہوں اور غلطیوں کی کثرت ہے جس سے کوئی امتی محفوظ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ اس حدیث مبارکہ سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے کہ مومن کا لفظ صرف اسی شخص پر بولا: جا سکتا ہے جس کے ذمے کوئی گناہ نہ ہو۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے بڑے مومن تھے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1303   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 251  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے پروردگار! میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ لہذا تو مجھے اپنی جناب سے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 251»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام، حديث:834، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر، حديث:2705.»
تشریح:
اس حدیث سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ انسان سے ہر وقت لغزش اور غلطی و خطا کا امکان رہتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا انسان بھی اپنے آپ کو اس سے مستغنی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ان کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدیق کا خطاب عطا ہوا تھا۔
راوئ حدیث: «حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوبکر کنیت اور صدیق لقب ہے۔
عبداللہ بن عثمان نام ہے۔
ان کے والد عثمان‘ ابو قحافہ کی کنیت سے مشہور تھے۔
تیم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے خلیفۂ راشد تھے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل انسان ہیں۔
ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران میں غار ثور میں آپ کے ساتھی تھے۔
اسی بنا پر ان کو یارِ غار کہا جاتا ہے۔
گورے چٹے‘ نرم مزاج اور دبلے پتلے جسم کے انسان تھے۔
تعریف سے مستغنی ہیں۔
بڑے عزم و استقلال اور صمیم الارادہ تھے۔
احباب و رفقاء کے لیے رحیم و رقیق اور اعدائے اسلام اور دشمنان دین کے لیے ناقابل تسخیر چٹان تھے۔
۱۳ ہجری میں جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 251   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3835  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان۔`
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: تم یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہی ہے، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو غفور و رحیم (بخشنے والا مہربان) ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3835]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
نماز میں سلام سے پہلے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں۔

(2)
گناہوں کی بخشش کےلیے دعا کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔

(3)
دعائے مغفرت کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی گناہ سر زد ہوا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3835   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3531  
´باب:۔۔۔`
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں ۱؎، آپ نے فرمایا: کہو: «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا، اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3531]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نماز میں سے مراد ہے آخری رکعت میں سلام سے پہلے۔

2؎:
اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے،
جب کہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا،
اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے،
اور مجھ پر رحم فرما،
تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3531   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6869  
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی،آپ مجھے کوئی ایسی دعاسکھائیں جو میں اپنی نماز میں مانگوں،آپ نے فرمایا:"کہو،اے اللہ!میں نے اپنی جان پر بہت بڑاظلم کیا ہے،قتیبہ کی روایت میں ہے،بہت ظلم کیے ہیں اور گناہوں کو تیرے سواکوئی نہیں بخش سکتا،اس لیے تو اپنے پاس سے مجھے مغفرت عنایت فر اور مجھ پر رحم فرما،کیونکہ تو ہی بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6869]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا،
ہر انسان کو خواہ وہ کتنا ہی بلند مرتبہ ہو،
حتیٰ کہ درجہ صدیقیت ہی پر فائز کیوں نہ ہو،
اپنے آپ کو قصوروار اور خطاکار سمجھنا چاہیے اور ہر وقت اللہ سے بخشش کی دعا کرنا چاہیے اور یہ بھی تصور کرنا چاہیے،
کہ اے اللہ! اگرچہ میں تو ناکارہ ہوں،
بخشش کے قابل نہیں ہوں تو ہی اپنی طرف سے مجھے مغفرت سے سرفراز فرما اور اپنی نسبت اور اپنی شان کے مطابق مغفرت عطا کر،
جتنا تو عظیم ہے،
میری مغفرت بھی عظیم ہو،
جو ہر کوتاہی کو شامل ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6869   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6326  
6326. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں دوران نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھاکرو: اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے گناہوں کو تیرے سوا اور کوئی معاف کرنے والا نہیں ہے لہذا تو اپنے ہاں میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، یقیناً تو بہت زیادہ بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔ عمرو بن حارث نے بھی اس حدیث کو یزید سے انہوں نے ابو الخیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے سنا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی ﷺ سے عرض کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6326]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر وبن حارث کی روایت کو خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التوحید میں وصل کیا ہے:
قَالَ الطَّبَرِيُّ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ دَلَالَةٌ عَلَى رَدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ لَا يَسْتَحِقُّ اسْمَ الْإِيمَانِ إِلَّا مَنْ لَا خَطِيئَةَ لَهُ وَلَا ذَنْبَ لِأَنَّ الصِّدِّيقَ مِنْ أَكْبَرِ أَهْلِ الْإِيمَانِ وَقَدْ عَلَّمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُولَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَقَالَ الْكِرْمَانِيُّ هَذَا الدُّعَاءُ مِنَ الْجَوَامِعِ لِأَنَّ فِيهِ الِاعْتِرَافَ بِغَايَةِ التَّقْصِيرِ وَطَلَبِ غَايَةِ الْإِنْعَامِ فَالْمَغْفِرَةُ سَتْرُ الذُّنُوبِ وَمَحْوُهَا وَالرَّحْمَةُ إِيصَالُ الْخَيْرَاتِ فَفِي الْأَوَّلِ طَلَبُ الزَّحْزَحَةِ عَنِ النَّارِ وَفِي الثَّانِي طَلَبُ إِدْخَالِ الْجَنَّةِ وَهَذَا هُوَ الْفَوْز الْعَظِيم۔
(فتح الباري)
یعنی حضرت ابوبکر والی حدیث میں اس شخص کے قول کی تردید ہے جو کہتا ہے کہ لفظ ایمان دار اسی پر بولا جا سکتا ہے مطلقا گناہوں سے پاک وصاف ہو حالانکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کون مومن ہوگا اس کے باوجود آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا سکھلائی جو یہاں مذکور ہے جس میں اپنے نفس پر مظالم یعنی گناہوں کا ذکر ہے۔
کرمانی نے کہا کہ اس دعا میں غایت تقصیر کے اعتراف کی تعلیم ہے اور غایت انعام کی طلب ہے کیونکہ مغفرت گناہوں کا چھپانا ہے اور رحمت سے مراد نیکیوں کا ایصال ہے پس اول میں دوزخ سے بچنا اور دوسری میں جنت میں داخلہ اور یہی ایک بڑی مراد ہے۔
اللہ ہر مسلمان کی یہ مراد پوری کرے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6326   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7388  
7388. سیدنا ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھاکرو: اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے مغفرت عطا فرما یقیناً تو ہی بہت زیادہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7388]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ بات سے مشکل ہے۔
بعضوں نے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے دعا کرنا اسی وقت فائدہ دے گا جب وہ سنتا دیکھتا ہو تو آپ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ وہ سنتا دیکھتا ہے۔
میں کہتا ہوں سبحان اللہ امام بخاری کی باریکی فہم اس دعا میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا ہے بہ صیغہ امر اور بکاف خطاب اور اللہ تعالیٰ کا مخاطب کرنا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضر ہو ورنہ غائب شخص کو کون مخاطب کرے گا پس اس دعا سے باب کا مطلب ثابت ہو گیا۔
دوسرے یہ کہ حدیث میں وارد ہے جب کوئی تم میں سے نماز پڑھتا ہے تو اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور سر گوشی کی حالت میں کوئی بات کہنا اسی وقت مؤثر ہوگی جب مخاطب بخوبی سنتا ہو تو اس حدیث کو اس حدیث کے ساتھ ملانے سے یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کا سمع بے انتہاء ہے وہ عرش پر رہ کر بھی نمازی کی سر گوشی سن لیتا ہے اور یہی باب کا مطلب ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7388   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6326  
6326. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں دوران نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھاکرو: اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے گناہوں کو تیرے سوا اور کوئی معاف کرنے والا نہیں ہے لہذا تو اپنے ہاں میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، یقیناً تو بہت زیادہ بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔ عمرو بن حارث نے بھی اس حدیث کو یزید سے انہوں نے ابو الخیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے سنا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی ﷺ سے عرض کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6326]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دعا بہت جامع ہے۔
اس میں انسان کی اپنی انتہائی تقصیر کا بیان ہے کہ اس نے خود پر بہت ظلم کیا ہے اور انتہائی انعام کی طلب ہے اور وہ مغفرت و رحمت ہے کیونکہ مغفرت سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور رحمت، دخول جنت کا ذریعہ ہے۔
دوزخ سے دور ہو جانا اور جنت میں داخلہ مل جانا ہی بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی یہ مراد پوری کرے۔
آمین (2)
اس حدیث سے اس دعا کا دوران نماز میں پڑھنا ثابت ہوا چونکہ نماز میں انسان اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتا ہے، لہذا دوران نماز میں دعا مانگنا بہترین عمل ہے۔
(فتح الباري: 158/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6326   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7388  
7388. سیدنا ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: یہ دعا پڑھاکرو: اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے مغفرت عطا فرما یقیناً تو ہی بہت زیادہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7388]
حدیث حاشیہ:

کچھ شارحین نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے سمیع اور بصیر ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
اس کا جواب علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جنھیں دیکھا یا سنا جاتا ہے اس دعا کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان گناہوں کو دیکھتا اور سنتا ہے پھر بندے کی دعا کے مطابق اس کی مغفرت عمل میں آتی ہے۔
(فتح الباري: 459/13)

اس مقام پر حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جس ذات کو پکارنے والا پکارتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمیع ہوتا کہ پکارنے والےکی پکار کو ہر آن سنے اور وہ بصیر ہو۔
تاکہ اس کی حالت کو دیکھ کر اپنی قدرت کاملہ سے اس کے مطلوب کو اس تک پہنچائے اگر وہ ایسا نہیں ہو گا۔
تو دعا کرنے والے کی پکار ضائع اور بے کار ہے۔
بندے کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرف قبولیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سمیع بصیر، قادر زندہ اور جاننے والا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے معبودان باطلہ کی بے بسی بایں الفاظ میں بیان کی ہے جو سنتے یا دیکھتے نہیں ہیں۔
اور اس شخص سے بڑھ کراور کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انھیں پکارے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے۔
اور وہ (اس قسم کے معبودان باطلہ تو)
ان کی دعا و پکار ہی سے بے خبرہیں۔
(الأحقاف: 5)
نیز جس سے دعا کی جائے اس کے چند ایک لوازمات حسب ذیل ہیں۔
"وجود" کیونکہ جو موجود نہ ہو اس سے دعا نہیں کی جاتی۔
"غنی" کیونکہ فقیر و محتاج سے کوئی نہیں مانگتا۔
"سمیع" کیونکہ بہرے کو کوئی نہیں پکارتا۔
"کریم" کیونکہ بخیل سے کوئی سوال نہیں کرتا۔
"رحیم" کیونکہ سنگدل سے کوئی التجانہیں کرتا۔
"قادر"کیونکہ عاجز اور بے بس کوکوئی نہیں پکارتا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 196/1)

ان حقائق کی بنا پر مذکورہ حدیث عنوان کے عین مطابق ہے کیونکہ اس دعا میں انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونا اسی وقت صحیح ہوگا جب وہ سنتا دیکھتا اور حاضرہو۔
بصورت دیگر غائب کوکون مخاطب کرتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7388