Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
28. باب تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ وَإِقَامَتِهَا وَفَضْلِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ مِنْهَا وَالاِزْدِحَامِ عَلَى الصَّفِّ الأَوَّلِ وَالْمُسَابَقَةِ إِلَيْهَا وَتَقْدِيمِ أُولِي الْفَضْلِ وَتَقْرِيبِهِمْ مِنَ الإِمَامِ:
باب: صفوں کو سیدھا کرنے اور پہلی صف کی فضیلت اور پہلی صف پر سبقت کرنے اور فضیلت والوں کو امام کے قریب ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 975
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ ".
قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی صفوں کو برابر کیا کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا نماز کی تکمیل کا حصہ ہے <ہیڈنگ 2> 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں اپنی صفوں کو برابر کیا کرو کیونکہ صفوں کا سیدھا اور برابر کرنا نماز کی تکمیل میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 975 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 975  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قرآن مجید میں جگہ جگہ،
﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ کی صورت میں اقامت الصلوۃ کا حکم دیا ہے جو مسلمانوں کا فرض اولین ہے اور اس کی کامل اورصحیح ادائیگی کے لیے یہ شرط ہے کہ جماعت کی صفیں بالکل سیدھی اور برابر ہوں۔
صحیح بخاری کے الفاظ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلٰوۃِ ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 975   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 667  
´صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 667]
667۔ اردو حاشیہ:
شیطان مومنین مخلصین پر ہر آن مقام پر حملے کے لیے گھات میں رہتا ہے جب وہ نماز کی صفوں سے گھس آتا ہے تو مسجد سے باہر اور عام حالات میں اس کا حملہ اور سخت ہوتا ہو گا، لہٰذا ہر مسلمان کو اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے اور اس کی واحد صورت شریعت کا علم حاصل کرنا اور پھر تمام چھوٹے بڑے امور پر بلا تخصیص عمل پیرا ہونا ہے۔ «و بالله التوفيق»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 667   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 668  
´صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی صفیں درست رکھو کیونکہ صف کی درستگی تکمیل نماز میں سے ہے (یعنی اس کے بغیر نماز ادھوری رہتی ہے)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 668]
668۔ اردو حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صفوں میں جڑ کر کھڑے نہیں ہوتے، درمیان میں خلا رکھتے ہیں، یا صف ٹیڑھی رکھتے ہیں، ان کی نماز کامل نہیں ہوتی، ناقص رہتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 668   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 671  
´صفوں کو درست اور برابر کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اگلی صف پوری کرو، پھر اس کے بعد والی کو، اور جو کچھ کمی رہ جائے وہ پچھلی صف میں رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 671]
671۔ اردو حاشیہ:
جو کمی ہو وہ آخری صف میں ہو۔ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آخری صف جو ناقص ہو، اس میں مقتدی کس طرح کھڑے ہوں؟ امام کے دائیں جانب، یا درمیان میں؟ تو یہ ایک دوسری حدیث «وسطو ا الامام» امام کودرمیان میں کرو سے وضاحت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم بہتر صورت یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ صف کے درمیان میں کھڑے ہوں تاکہ امام درمیان میں رہے۔ [عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 671   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 816  
´امام کا صفیں درست کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کی ترغیب دلانا۔`
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفیں سیسہ پلائی دیوار کی طرح درست کر لو، اور انہیں ایک دوسرے کے نزدیک رکھو، اور گردنیں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں شیاطین کو صف کے درمیان ۱؎ گھستے ہوئے دیکھتا ہوں جیسے وہ بکری کے کالے بچے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 816]
816 ۔ اردو حاشیہ:
➊ دوران نماز صف میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا چاہیے مثلاً: پاؤں کے ساتھ پاؤں کندھے کے ساتھ کندھا اور ٹخنے کے ساتھ ٹخنہ وغیرہ۔
➋ اسی طرح دو صفوں کا درمیانی فاصلہ صرف اتنا ہوکہ آسانی سے سجدہ کیا جا سکے مثلا: تین ہاتھ۔ صفیں قریب ہوں گی تو امام کی آواز بھی سنائی دے گی۔ نمازیوں کی گنجائش بڑھ جائے گی۔
➌ گردنیں ایک سیدھ میں رکھنے کا مطلب ہے صفیں سیدھی کرنا۔
➍ دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہ ہو ورنہ شیطان ان کے درمیان داخل ہو گا یعنی ان میں اختلافات اور فاصلہ پیدا کرے گا۔ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ہوتا ہے۔ واللہ آعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 816   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 819  
´پچھلی صف کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اگلی صف پوری کرو، پھر جو اس سے قریب ہو، اور اگر کچھ کمی رہے تو پچھلی صف میں رہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 819]
819 ۔ اردو حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ ترتیب وار پہلے اگلی صفوں کو مکمل کیا جائے۔ ان میں کوئی کمی نہ ہو۔ اگر کمی ہو (نمازیوں کی کمی کی وجہ سے) تو وہ آخری صف میں ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 819   

  الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 827  
´صفوں کی درستی`
«. . . سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِهُ . . .»
. . . تم لوگ اپنی صفیں درست رکھو کیونکہ صف کی درستگی تکمیل نماز میں سے ہے . . . [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف / باب تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ/ ح: 668]
فوائد و مسائل
سوال: ہمارے امام صاحب نماز سے پہلے صفوں کی درستی پر بڑا زور دیتے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: نماز باجماعت میں صف بندی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صف درست کرنا اقامت صلاۃ میں سے ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«سووا صفوفكم فان تسوية الصف من تمام الصلاة» [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها 433، أبوداؤد 668، ابن ماجه 993، أبوعوانة 38/2، دارمي 1266، أحمد 177/3]
صفیں درست کرو بےشک صف کی درستی نماز کے پوراکرنے سے ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفوں کی درستی اقامت صلاۃ اور تمام صلاۃ سے ہے اور ان کا ٹیڑھا ہونا نماز کے نقصان کا موجب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَقِيْمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاةِ فَاِنَّ اِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاةِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب إقامة الصف من تمام الصلاة 722، عبدالرزاق 2424]
نماز میں صف قائم کرو، بےشک صف کا قائم کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَحْسِنُوْا اِقَامَةَ الصُّفُوْفِ فِي الصَّلَاةِ» [أحمد 485/2]
نماز میں صفوں کی درستی اچھے طریقے سے کرو۔
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ [صحيح الترغيب والترهيب 496]
ان صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوا کہ صف کا صحیح و درست رکھنا نماز کے حسن و خوبصورتی میں سے ہے اور اس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، اگر صف کی درستی صحیح نہ ہو گی تو نماز کے اندر نقصان لازم آئے گا۔ صفوں کی درستی اور ان کا سیدھا ہونا رکوع ہی میں نہیں بلکہ قیام ہی سے ضروری و لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے صفیں درست کرتے تھے پھر نمازشروع کرتے تھے۔ اگر صف میں نقص ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح فرماتے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف درست کرتے تھے حتی کہ اسے نیزے یا تیر کی مانند کر دیتے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کاسینہ آگے بڑھا ہوا دیکھا تو فرمایا: اپنی صفوں کو درست کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ بعض روایات میں چہروں کی بجائے دلوں کا ذکر ہے۔ [ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب إقامة الصفوف 994، أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف 663، مسلم 436، بخاري 717۔ مختصر]
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک صفوں میں چلے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے اور کہتے: اختلاف نہ کرو، تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔ اور کہا کرتے تھے: بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف 664، نسائي، كتاب الإمامة: باب كيف يقول الإمام الصفوف 812]
زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ صف کی درستی نماز شروع کرنے سے پہلے ہونی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کا کام صفیں درست کرنا بھی ہے۔ اگر کہیں صف میں خلل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح کرائے پھر نماز شروع کرے۔ لیکن افسوس کہ ائمہ مساجد آج اس بات کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ اقامت کہنے کے ساتھ ہی نماز شروع کر دی جاتی ہے۔ صفوں کی درستی نہیں کرائی جاتی۔ نماز میں ہر شخص کو اس طرح کھڑا ہونا چاہیے کہ اپنے ساتھ والے کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں پورا ملا ہو، درمیان میں کوئی خلا نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلا پر کرنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
یقیناًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو قائم کرو اور کندھوں اور بازوؤں کو برابر کرو اور شگاف بند کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو اور جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دے گا۔ [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف666، نسائي، كتاب الامامة: باب من وصل صفاََ 818، حاكم 1/ 213]
امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ [صحيح الترغيب و التر هيب 492]
امام منذری رحمہ اللہ اس حدیث میں موجود لفظ «فرجات» کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«الْفُرُجَاتُ جَمْعُ فُرْجَةٍ وَهِيَ الْمَكَانُ الْخَالِيْ بَيْنَ الْاِثْنَيْنِ»
لفظ «فرجات» «فرجة» کی جمع ہے اور اس کا مطلب دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صف میں شگاف بند کرنے چاہئیں اور دو آدمیوں کے درمیان خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا جو لوگ دو نمازیوں کے درمیان چار انگلیوں یا اس سے زیادہ فاصلہ کرتے ہیں، ان کا عمل درست نہیں، انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئیے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«لَقَدْ رَأَيْتُ اَحَدَنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ وَلَوْ ذَهَبَتْ تَفْعَلُ ذٰلِكَ لَتَرَيٰ اَحَدَهُمْ كَاَنَّهُ بَغْلٌ شُمُوْسٌ» [ابن أبى شيبة 3524، 308/1، فتح الباري 211/2، عمدة القاري 260/5]
میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا پاؤں اپنے ساتھی کے پاؤں سے چپکا دیتا تھا اور اگر تو آج کسی کے ساتھ ایسا کرے تو ان میں سے ہر کسی کو دیکھے گا کہ وہ (ایسے بدکتا ہے) گویا وہ شریر خچر ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو قائم کرو (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہی) اللہ کی قسم تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ صحابی فرماتے ہیں: پھر میں نے دیکھا کہ نمازی اپنا کندھا اور بازو اپنے ساتھی کے کندھے اور بازو سے، اپنا گھٹنا اس کے گھٹنے سے اور اپنا ٹخنہ اس کے ٹخنے سے ملا دیتا تھا۔ [ابوداؤد، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف622، بخاري، كتاب الأذان: باب إلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم تعليقًا، أحمد 276/4، ابن حبان 396، دارقطني 282/1]
ابوعثمان النہدی فرماتے ہیں:
«كُنْتُ فِيْمَنْ ضَرَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَدَمَهُ لِإِقَامَةِ الصَّفِّ فِي الصَّلَاةِ» [المحلي لابن حزم 58/4، موسوعة فقه عمر بن الخطاب رضى الله عنه ص/445، ابن أبى شيبة 3530، 309/1، فتح الباري 210/2]
میں ان لوگوں میں تھا جنہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نماز میں صف قائم کرنے کے لیے پاؤں پر مارا تھا۔
صالح بن کیسان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایاکرتے تھے:
«لَاَنْ يَّخِرَّ ثِنْتَايَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ أَنْ أَرٰي فِي الصَّفِّ خَلَاءً وَلَا اَسُدُّهُ» [عبدالرزاق 2473، 57/2، ابن أبى شيبة 333/1، المحلي 59/4]
مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میرے دو دانت ٹوٹ جائیں اس بات سے کہ اگر میں صف میں شگاف دیکھوں اور اسے بند نہ کروں۔
درج بالا صحیح اور حسن احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز شروع کرتے وقت پہلے صفیں سیدھی کرنی چاہئیں۔ اگر صف میں کوئی خلا ہو تو اس کو بند کیا جائے۔ امام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ صفیں درست کرائے۔ ہر نمازی اپنے بھائی کے کندھے کے ساتھ کندھا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملائے اور اپنے بھائی کے ہاتھ میں نرم ہو جائے۔ جب صف درست ہو جائے تو امام نماز شروع کرے اور یہ عمل قیام ہی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ قیام میں تو کندھوں میں اور پاؤں میں وقفہ ہو اور رکوع میں ملانا شروع کر دیں۔ اسی طرح پاؤں کی صرف ایک انگلی نہیں بلکہ پورا قدم ملایا جائے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ملایا کرتے تھے اور قدم ملانے سے شریر خچر کی طرح بدکنا نہیں چاہیے۔ پاؤں ملانے اور شگاف بند کرنے سے نمازی اللہ تعالیٰ سے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عمل کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر قسم کے افراط و تفریط سے محفوظ رکھے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 204   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 329  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اپنی صفوں کو مضبوطی سے ملاؤ اور ان کے درمیان فاصلہ کم رکھو اور اپنی گردنوں کو ایک محاذ پر رکھو (برابر برابر رکھو)۔
اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 329»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب تسوية الصفوف، حديث:667، والنسائي، الإمامة، حديث:815، وابن حبان (الإحسان): 3 /298، حديث:2163، وابن خزيمة، حديث:1545.»
تشریح:
اسلام میں صف بندی اور شیرازہ بندی کی بڑی تاکید اور اہمیت ہے۔
اس کی تربیت و ٹریننگ اسلام کے اہم ترین بنیادی رکن‘ نماز میں صف بندی کے ذریعے سے دی گئی ہے۔
جہاد میں بُنْـیَانٌ مَرْصُوص کی جتنی ضرورت و اہمیت ہے اس کے بیان کرنے کی اس مقام پر چنداں ضرورت نہیں‘ اشارہ ہی کافی ہے۔
صف بندی میں اگر رخنہ پڑ جائے یا صفوں میں خلل واقع ہو جائے تو باہمی ربط و ضبط اور محبت میں بھی خلل پڑ تا ہے۔
اسلام دلوں کو جوڑنا اور باہمی تعلقات کو استوار کرنا‘ اسلامی برادری میں مساوات کے ذریعے سے ایک ہی صف میں محمود و ایاز کو کھڑا کرنا اور شیطانی دخل اندازی سے اسے بچانا اور محفوظ رکھنا چاہتا ہے‘ چنانچہ صحیحین میں روایت ہے کہ نماز کھڑی ہونے کے موقع پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیوں کی طرف رخ موڑ کر فرمایا: اپنی صفوں کو سیدھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں کجی و ٹیڑھ اور مخالفت ڈال دے گا۔
راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے نمازیوں کو دیکھا کہ جماعت میں ایک آدمی اپنا کندھا دوسرے کے کندھے سے‘ اپنے ٹخنے کو اس کے ٹخنے کے ساتھ اور اپنے گھٹنے کو اس کے گھٹنے کے ساتھ ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔
دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب تسویۃ الصفوف‘ حدیث:۶۶۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا: قسم ہے مجھے اس ذات اقدس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں دیکھتا ہوں کہ شیطان صفوں کے درمیان بکری کے بچے کی صورت میں گھس جاتا ہے۔
(سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب تسویۃ الصفوف‘حدیث:۶۶۷) یعنی وہ نمازیوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے‘ خشوع و خضوع سے بیگانہ کر دیتا ہے اور توجہ الی اللہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
نماز میں صفوں کی درستی کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث منقول ہیں۔
الغرض نماز باجماعت کی صورت میں صف بندی کی بہت تاکید ہے۔
مل کر کھڑا ہونا چاہیے اور درمیان میں قطعاً جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 329   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث993  
´صفیں برابر کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی صفیں برابر کرو، اس لیے کہ صفوں کی برابری تکمیل نماز میں داخل ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 993]
اردو حاشہ:
فائدہ:

(1)
صفیں درست کرنے سے مراد انھیں سیدھا کرنا ہے۔
یعنی سب لوگ برابر کھڑے ہوں ایک دوسرے سے آگے پیچھے نہ ہوں۔

(2)
صفیں ٹیڑھی رکھنے اور باہم مل کر نہ کھڑے ہونے سے نماز ناقص ہوتی ہے اورثواب کم ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 993   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:723  
723. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: صفوں کو برابر کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا نماز کا قائم کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:723]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث ذکر کی ہیں:
پہلی حدیث میں ہے کہ صف کا درست کرنا نماز کی خوبی کا ایک حصہ ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صف کو درست کرنا نماز کی خوبی ہے، البتہ نفس نماز میں کوئی دخل نہیں، صرف اس کے ذریعے سے نماز میں حسن پیدا ہوتا ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ صفوں کا برابر کرنا نماز کو قائم کرنا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صفیں برابر نہ ہوئیں تو اقامت نماز کی بھی نفی ہوجائے گی۔
(2)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا عنوان قائم کرکے تنبیہ فرمائی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کی ماہیت میں داخل نہیں کہ اس کی نفی سے نماز کی نفی ہوجائے اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ صفوں کی درستگی کو بالکل نماز سے الگ کر دیا جائے، بلکہ صف بندی نماز کے مکملات میں سے ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ابن حزم ؒ نے (إقامة الصلاة)
کے الفاظ سے صف بندی کو واجب قرار دیا ہے، کیونکہ نماز کا قائم کرنا واجب ہےاور صف بندی (إقامة الصلاة)
کا حصہ ہے، لہٰذا جو فرض کا حصہ ہے وہ بھی فرض ہوا، لیکن اس حدیث کے تمام راوی مذکورہ الفاظ بیان کرنے میں متفق نہیں بلکہ اکثر راویوں نے (إقامة الصلاة)
کے بجائے (تمام الصلاة)
کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
شارح بخاری ابن بطال ؒ نے حسن الصلاة کے پیش نظر کہا ہے کہ صف بندی سنت کا درجہ رکھتی ہے اور کسی چیز کا حسن اس کے تمام ہونے سے زائد ہے۔
ابن دقیق العید ؒ نے کہا ہے کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں صف بندی مستحب ہے، کیونکہ عرف میں تمام شے بھی حقیقت پر زائد چیز ہے۔
(فتح الباري: 271/2)
بہر حال نماز میں صف بندی کا اہتمام انتہائی ضروری ہے، اس سے نماز میں حسن پیدا ہوتا ہے اور ایسا کرنا نماز کی تکمیل ہے۔
صفوں کو ٹیڑھا رکھنا شیطان کو دخل اندازی کا موقع فراہم کرنا ہے, جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
والله أعلم۔
صف بندی کے وجوب یا عدم وجوب کی تفصیل آئندہ حدیث کے تحت بیان ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 723