صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
26. باب النَّهْيِ عَنْ رَفْعِ الْبَصَرِ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 967
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ، عَنْ رَفْعِهِمْ أَبْصَارَهُمْ عِنْدَ الدُّعَاءِ فِي الصَّلَاةِ إِلَى السَّمَاءِ، أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ ".
۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” لوگ نماز میں دعا کے وقت اپنی نظریں آسمان کی طرف بلند کرنے سے لازما باز آ جائیں یا (پھر ایسا ہو سکتا ہے کہ) ان کی نظریں اچک لی جائیں۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ نماز میں دعا کے وقت اپنی نظریں آسمان کی طرف بلند کرنے سے باز آ جائیں، وگرنہ ان کی نظریں اچک لی جائیں گی۔ (نظریں سلب کر لی جائیں گی)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 967 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 967
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَيَنْتَهِيَنَّ:
وہ ضرور باز آ جائیں،
یا رک جائیں یعنی نماز میں آسمان کی طرف ہر گز نظر نہ اٹھائیں۔
(2)
إِنْتِهَاء:
روکنا،
باز رہنا سے ماخوذ ہے۔
(3)
لَاتَرْجُِ إِلَيْهِم:
ان کی طرف (ان کی نظریں)
واپس نہیں لوٹیں گی،
بینائی سلب کر لی جائے گی۔
رجوع:
لوٹنا،
واپس آنا سے ماخوذ ہے۔
(4)
لَتُخْطَفَنَّ:
خَطَفَ سے ماخوذ ہے،
جلدی سے سلب کر لینا،
اچک لینا۔
فوائد ومسائل:
نماز کی حالت میں اگرچہ انسان دعائیہ کلمات پڑھ رہا ہو پھر بھی آسمان کی طرف دیکھنا قطعاً ناجائز ہے اور اس پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بینائی سلب کر سکتا ہے ہاں نماز کے علاوہ دعا کے دوران قلبی توجہ کے ساتھ ساتھ،
آسمان کی طرف نظر اٹھانا جائز ہے۔
کیونکہ اللہ رب العالمین مستوی عرش ہے،
اس لیے جس طرح نماز کے لیے قبلہ،
کعبہ معظمہ ہے،
اس طرح دعا کے لیے قبلہ،
اوپر ہے اس لیے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگی جاتی ہے،
جمہور علماء کا یہی مؤقف ہے اگرچہ قاضی شریح وغیرہ نے اس کو بھی مکروہ قرار دیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 967