موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْفَرَائِضِ
کتاب: ترکے کی تقسیم کے بیان میں
11. بَابُ مِيرَاثِ وِلَايَةِ الْعَصَبَةِ
عصبات کی میراث کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ شَيْءٍ سُئِلْتَ عَنْهُ مِنْ مِيرَاثِ الْعَصَبَةِ فَإِنَّهُ عَلَى نَحْوِ هَذَا: انْسُبِ الْمُتَوَفَّى وَمَنْ يُنَازِعُ فِي وِلَايَتِهِ مِنْ عَصَبَتِهِ. فَإِنْ وَجَدْتَ أَحَدًا مِنْهُمْ يَلْقَى الْمُتَوَفَّى إِلَى أَبٍ لَا يَلْقَاهُ أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَى أَبٍ دُونَهُ. فَاجْعَلْ مِيرَاثَهُ لِلَّذِي يَلْقَاهُ إِلَى الْأَبِ الْأَدْنَى، دُونَ مَنْ يَلْقَاهُ إِلَى فَوْقِ ذَلِكَ. فَإِنْ وَجَدْتَهُمْ كُلَّهُمْ يَلْقَوْنَهُ إِلَى أَبٍ وَاحِدٍ يَجْمَعُهُمْ جَمِيعًا، فَانْظُرْ أَقْعَدَهُمْ فِي النَّسَبِ. فَإِنْ كَانَ ابْنَ أَبٍ فَقَطْ، فَاجْعَلِ الْمِيرَاثَ لَهُ دُونَ الْأَطْرَافِ. وَإِنْ كَانَ ابْنَ أَبٍ وَأُمٍّ. وَإِنْ وَجَدْتَهُمْ مُسْتَوِينَ، يَنْتَسِبُونَ مِنْ عَدَدِ الْآبَاءِ إِلَى عَدَدٍ وَاحِدٍ. حَتَّى يَلْقَوْا نَسَبَ الْمُتَوَفَّى جَمِيعًا، وَكَانُوا كُلُّهُمْ جَمِيعًا بَنِي أَبٍ، أَوْ بَنِي أَبٍ وَأُمٍّ. فَاجْعَلِ الْمِيرَاثَ بَيْنَهُمْ سَوَاءً. وَإِنْ كَانَ وَالِدُ بَعْضِهِمْ أَخَا وَالِدِ الْمُتَوَفَّى لِلْأَبِ وَالْأُمِّ. وَكَانَ مَنْ سِوَاهُ مِنْهُمْ إِنَّمَا هُوَ أَخُو أَبِي الْمُتَوَفَّى لِأَبِيهِ فَقَطْ، فَإِنَّ الْمِيرَاثَ لِبَنِي أَخِي الْمُتَوَفَّى لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، دُونَ بَنِي الْأَخِ لِلْأَبِ. وَذَلِكَ أَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ، إِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾.
امام مالک نے فرمایا کہ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جتنے عصبات موجود ہوں ان کو میّت کی طرف نسبت دیں، یعنی یہ میّت کا کون ہے(1)، جو شخص اُن میں سے ایسے باپ میں میّت کے ساتھ مل جائے کہ اس سے قریب کے باپ میں دوسرا کوئی نہ ملے تو اسی کو میراث ملے گی، نہ کہ ان کو جو اوپر کے باپ میں ملتے ہیں(2)۔ اگر کئی ایک ان میں سے ایک ہی باپ میں جا کر شریک ہوں تو یہ دیکھا جائے گا کہ رشتہ کس کا نزدیک ہے، اگرچہ نزدیک والا سو تیلا ہو تب بھی میراث اسی کو ملے گی، اور دور والا سگا بھی ہو تب بھی میراث اس کو نہ ملے گی(3)۔ اور جو رشتے میں سب برابر ہوں اور سب سگے ہوں، یا سب سوتیلے ہوں، تو ترکے میں سے برابر برابر حصّہ پائیں گے۔ اگر اُن میں سے بعضوں کا باپ میّت کے باپ کا سگا بھائی ہو اور بعضوں کا باپ میّت کے باپ کا سوتیلا بھائی ہو تو میراث سگے بھائی کی اولاد کو ملے گی، نہ کہ سوتیلے کی اولاد کو، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”ناطے والے ایک دوسرے کے قریب ہیں اللہ کی کتاب میں، اللہ خوب جانتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 9ق»