Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْفَرَائِضِ
کتاب: ترکے کی تقسیم کے بیان میں
5. بَابُ مِيرَاثِ الْإِخْوَةِ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ
سگے بھائی بہن کی میراث کا بیان
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ سگے بھائی بہن بیٹے یا پوتے کے ہوتے ہوئے، یا باپ کے ہوتے ہوئے، کچھ نہ پائیں گے، بلکہ سگے بھائی بہن بیٹیوں یا پوتیوں کے ساتھ وارث ہوتے ہیں۔ جب میّت کا دادایعنی باپ کا باپ زندہ نہ ہو تو جس قدر مال بعد ذوی الفروض کے حصّہ دینے کے بچ رہے گا وہ سگے بہن بھائیوں کا ہوگا، بانٹ لیں گے اس کو اللہ کی کتاب کے موافق «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے طور پر، اور اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ پائیں گے۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر میت کا باپ اور دادا یعنی باپ کا باپ نہ ہو، نہ اس کا بیٹا ہو، نہ پوتا ہو، نہ بیٹے نہ پوتے صرف ایک بہن ہو سگی، تو اس کو آدھا مال ملے گا، اگر دو سگی بہنیں ہوں یا زیادہ تو دو تہائی ملیں گے، اگر ان بہنوں کے ساتھ کوئی بھائی بھی ہو تو بہنوں کو کوئی معین حصّہ نہ ملے گا، بلکہ اور ذوی الفروض کا فرض ادا کر کے جو بچ رہے گا وہ «﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾» کے طور پر بھائی بہن بانٹ لیں گے، مگر ایک مسئلہ میں سگے بھائی یا بہنوں کے لیے کچھ نہیں بچتا تو وہ اخیانی بھائی بہنوں کے شریک ہوجائیں گے۔ صورت اس مسئلے کی یہ ہے: ایک عورت مر جائے اور خاوند اور ماں اور سگے بھائی بہنیں اور اخیانی بھائی بہنیں چھوڑ جائے، تو خاوند کو آدھا، اور ماں کو چھٹا، اور اخیانی بھائی بہنوں کو تہائی ملے گا، اب سگے بہن بھائیوں کے واسطے کچھ نہ بچا تو تہائی میں وہ اخیانی بھائی بہنوں کے شریک ہو جائیں گے، مگر مرد اور عورت سب کو برابر پہنچے گا، اس واسطے کہ سب بھائی بہن مادری ہیں، ماں سب کی ایک ہے۔ کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: اگر کوئی شخص کلالہ مرے اس کا بھائی ہو یا بہن تو ہر ایک کو چھٹا ملے گا، اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے تہائی میں۔ پس حقیقی بہن بھائی بھی اخیانی بہن بھائیوں کے ساتھ شریک ہو گئے تہائی میں اس مسئلے میں اس لیے کہ وہ بھی مادری بھائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 1ق5»