موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْفَرَائِضِ
کتاب: ترکے کی تقسیم کے بیان میں
3. بَابُ مِيرَاثِ الْأَبِ وَالْأُمِّ مِنْ وَلَدِهِمَا
ماں باپ کی میراث کا بیان
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزد یک یہ حکم اتفاتی ہے کہ میّت اگر بیٹا یا پوتا چھوڑ جائے تو اس کے باپ کو چھٹا حصّہ ملے گا، اگر میّت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو تو جتنے ذوی الفروض اور ہوں ان کا حصّہ دے کر جو بچ رہے گا، چھٹا ہو یا چھٹے سے زیادہ وہ باپ کو ملے گا۔ اگر ذوی الغرض کے حصّے ادا کر کے (چھٹا حصّہ) نہ بچے تو باپ کو چھٹا حصّہ فرض کے طور پر دلا دیں گے(1)۔ میّت کی ماں کو جب میّت کی اولاد، یا اس کے بیٹے کی اولاد، یا دو یا زیادہ بھائی بہنیں سگے یا سوتیلے، یا مادری(2) ہوں تو چھٹا حصّہ ملے گا۔ ورنہ پورا تہائی ماں کو ملے گا جب میّت کی اولاد نہ ہو، اس کے بیٹے کی اولاد نہ ہو،، اس کے دو بھائی یا دو بہنیں ہوں۔ مگر دو مسئلوں میں ایک یہ کہ میّت زوجہ اور ماں باپ چھوڑ جائے تو زوجہ کو چوتھائی ملے گا اور ماں کو جو بچ رہا اس کا تہائی، یعنی كل مال کا چوتھائی ملے گا۔ دوسرا یہ کہ ایک عورت مر جائے اور خاوند اور ماں باپ کو چھوڑ جائے، تو خاوند کو آدھا ملے گا، بعد اس کے جو بچ رہے گا اس کا تہائی ماں کو ملے گا، یعنی کل مال کا چھٹا، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے اپنی کتاب میں: ”میّت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا ترکے میں سے اگرمیّت کی اولاد ہو، اگر اس کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوں تو ماں کو تہائی حصّہ ملے گا اور باقی باپ کو، اگر میّت کے بھائی ہوں یا نہیں تو ماں کو چھٹا حصّہ ملے گا۔“
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سنت جاری ہے اس امر پر کہ بھائیوں سے مراد دو بھائی یا دو بہنیں یا دو سے ز یادہ۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 1ق3»