موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الرَّهْنِ
کتاب: گروی رکھنے کے بیان میں
39. بَابُ الْعَيْبِ فِي السِّلْعَةِ وَضَمَانِهَا
اسباب میں عیب نکلنے کا بیان اور اس کا تاوان کس پر ہے
قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَبْتَاعُ السِّلْعَةَ مِنَ الْحَيَوَانِ أَوِ الثِّيَابِ أَوِ الْعُرُوضِ: فَيُوجَدُ ذَلِكَ الْبَيْعُ غَيْرَ جَائِزٍ فَيُرَدُّ وَيُؤْمَرُ الَّذِي قَبَضَ السِّلْعَةَ أَنْ يَرُدَّ إِلَى صَاحِبِهِ سِلْعَتَهُ. قَالَ مَالِكٌ: فَلَيْسَ لِصَاحِبِ السِّلْعَةِ إِلَّا قِيمَتُهَا يَوْمَ قُبِضَتْ مِنْهُ وَلَيْسَ يَوْمَ يَرُدُّ ذَلِكَ إِلَيْهِ. وَذَلِكَ أَنَّهُ ضَمِنَهَا مِنْ يَوْمَ قَبَضَهَا. فَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ نُقْصَانٍ بَعْدَ ذَلِكَ. كَانَ عَلَيْهِ. فَبِذَلِكَ كَانَ نِمَاؤُهَا وَزِيَادَتُهَا لَهُ. وَإِنَّ الرَّجُلَ يَقْبِضُ السِّلْعَةَ فِي زَمَانٍ هِيَ فِيهِ نَافِقَةٌ مَرْغُوبٌ فِيهَا ثُمَّ يَرُدُّهَا فِي زَمَانٍ هِيَ فِيهِ سَاقِطَةٌ لَا يُرِيدُهَا أَحَدٌ فَيَقْبِضُ الرَّجُلُ السِّلْعَةَ مِنَ الرَّجُلِ فَيَبِيعُهَا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ. وَيُمْسِكُهَا وَثَمَنُهَا ذَلِكَ. ثُمَّ يَرُدُّهَا وَإِنَّمَا ثَمَنُهَا دِينَارٌ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَذْهَبَ مِنْ مَالِ الرَّجُلِ بِتِسْعَةِ دَنَانِيرَ أَوْ يَقْبِضُهَا مِنْهُ الرَّجُلُ فَيَبِيعُهَا بِدِينَارٍ. أَوْ يُمْسِكُهَا. وَإِنَّمَا ثَمَنُهَا دِينَارٌ. ثُمَّ يَرُدُّهَا وَقِيمَتُهَا يَوْمَ يَرُدُّهَا عَشَرَةُ دَنَانِيرَ. فَلَيْسَ عَلَى الَّذِي قَبَضَهَا أَنْ يَغْرَمَ لِصَاحِبِهَا مِنْ مَالِهِ تِسْعَةَ دَنَانِيرَ. إِنَّمَا عَلَيْهِ قِيمَةُ مَا قَبَضَ يَوْمَ قَبْضِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص جانور یا کپڑا یا اور کوئی اسباب خریدے، پھر یہ بیع ناجائز معلوم ہو اور مشتری کو حکم ہو کہ وہ چیز بائع کو پھیر دے (حالانکہ اس شئے میں کوئی عیب ہو جائے)، تو بائع کو اس شئے کی قیمت ملے گی اس دن کی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی، نہ کہ اس دن کی جس دن وہ پھیرتا ہے، کیونکہ جس دن سے وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی اس دن سے وہ اس کا ضامن ہو گیا تھا، اب جو کچھ اس میں نقصان ہو جائے وہ اسی پر ہوگا، اور جو کچھ زیادتی ہو جائے وہ بھی اسی کی ہوگی، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مال ایسے وقت میں لیتا ہے جب اس کی قدر اور تلاش ہو، پھر اس کو ایسے وقت میں پھیر دیتا ہے جب کہ وہ بے قدر ہو، کوئی اس کو نہ پوچھے، تو آدمی ایک شئے خریدتا ہے دس دینار کو، پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے، اور پھیرتا ہے ایسے وقت میں جب اس کی قیمت ایک دینار ہو، تو یہ نہیں ہو سکتا کہ بے چارے بائع کا نو دینار کا نقصان کرے، یا جس دن خریدا اسی دن اس کی قیمت ایک دینار تھی، پھر پھیرتے وقت اس کی قیمت دس دینار ہوگئی، تو بائع مشتری کو ناحق نو دینار کا نقصان دے، اسی واسطے وہ قیمت اس دن کی واجب ہوئی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی ہو۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 7»