موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الشُّفْعَةِ
کتاب: شفعہ کے بیان میں
2. بَابُ مَا لَا تَقَعُ فِيهِ الشُّفْعَةُ
جن چیزوں میں شفعہ نہیں ہے اُن کا بیان
قَالَ مَالِك: وَالشُّفْعَةُ ثَابِتَةٌ فِي مَالِ الْمَيِّتِ كَمَا هِيَ فِي مَالِ الْحَيِّ، فَإِنْ خَشِيَ أَهْلُ الْمَيِّتِ أَنْ يَنْكَسِرَ مَالُ الْمَيِّتِ قَسَمُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ فَلَيْسَ عَلَيْهِمْ فِيهِ شُفْعَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے زمین خریدی اور مدت تک اس پر قابض رہا، بعد اس کے ایک شخص نے اس زمین میں اپنا حق ثابت کیا تو اس کو شفعہ ملے گا، اور جو کچھ زمین میں منفعت ہوئی ہے وہ مشتری کی ہوگی جس تاریخ تک اس کا حق ثابت ہوا ہے، کیونکہ وہ مشتری اس زمین کا ضامن تھا اگر وہ تلف ہوجاتی یا اس کے درخت تلف ہوجاتے۔ اگر بہت مدت گزر گئی، یا گواہ مر گئے، یا بائع اور مشتری مر گئے، یا وہ زندہ ہیں مگر بیع کو بھول گئے بہت مدت گزرنے کی وجہ سے، اس صورت میں اس شخص کو اس کا حق تو ملے گا مگر شفعے کا دعویٰ نہ پہنچے گا۔ اگر زمانہ بہت نہیں گزرا ہے اور اس شخص کو معلوم ہوا کہ بائع نے قصداً شفعہ باطل کرنے کے واسطے بیع کو چھپایا ہے، تو اصل زمین کی قیمت اور جو اس میں زیادہ ہوگیا ہے اس کی قیمت وہ شخص ادا کرکے شفعہ لے لے گا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 35 - كِتَابُ الشُّفْعَةِ-ح: 4»