موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الشُّفْعَةِ
کتاب: شفعہ کے بیان میں
1. بَابُ مَا تَقَعُ فِيهِ الشُّفْعَةُ
جس چیز میں شفعہ ثابت ہو اس کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ بَاعَ شِقْصًا مِنْ أَرْضٍ مُشْتَرَكَةٍ، فَسَلَّمَ بَعْضُ مَنْ لَهُ فِيهَا الشُّفْعَةُ لِلْبَائِعِ. وَأَبَى بَعْضُهُمْ إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ بِشُفْعَتِهِ: إِنَّ مَنْ أَبَى أَنْ يُسَلِّمَ يَأْخُذُ بِالشُّفْعَةِ كُلِّهَا. وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَدْرِ حَقِّهِ وَيَتْرُكَ مَا بَقِيَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک گھر میں چند آدمی شریک ہوں، اور ایک آدمی ان میں سے اپنا حصّہ بیچے سب شرکاء کی غیبت میں، مگر ایک شریک کی موجودگی میں، اب جو شریک موجود ہے اس سے کہا جائے: تو شفعہ لیتا ہے یا نہیں لیتا؟ وہ کہے: بالفعل میں اپنے حصّے کے موافق لے لیتا ہوں، بعد اس کے جب میرے شریک آئیں گے وہ اپنے حصّوں کو خرید کریں گے تو بہتر، نہیں تو میں کل شفعہ لے لوں گا۔ تو یہ نہیں ہو سکتا، بلکہ جو شریک موجود ہے اس سے صاف کہہ دیا جائے گا: یا تو شفعہ کل لے لے یا چھوڑ دے، اگر وہ لے لے گا تو بہتر، نہیں تو اس کا شفعہ ساقط ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 35 - كِتَابُ الشُّفْعَةِ-ح: 3»