امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے مشترک زمین کا ایک حصّہ کسی جانور یا غلام کے بدلے میں خریدا، اب دوسرا شریک مشتری سے شفعے کا مدعی ہوا، لیکن وہ جانور یا غلام تلف ہوگیا اور اس کی قیمت معلوم نہیں۔ مشتری کہتا ہے: اس کی قیمت سو دینار تھی، اور شفیع کہتا ہے: پچاس دینار تھی، تو مشتری سے قسم لیں گے اس امر پر کہ اس جانور یا غلام کی قیمت سو دینار تھی۔ بعد اس کے شفیع کو اختیار ہوگا چاہے سو دینار دے کر زمین کے اس حصّے کو لے لے، چاہے چھوڑ دے، البتہ اگر شفیع گواہ لائے اس امر پر کہ اس جانور یا غلام کی قیمت پچاس دینار تھی، تو اس کا قول معتبر ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے مشترک گھر یا مشترک زمین کا ایک حصّہ کسی کو ہبہ کیا، موہوب لہُ نے واہب کو اس کے بدلے میں کچھ نقد دیا یا چیز دی، تو اور شریک موہوب لہُ کو اسی قدر نقد یا اس چیز کی قیمت دے کر شفعہ لے لیں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنا حصّہ مشترک زمین یا مشترک گھر میں ہبہ کیا لیکن موہوب لہُ نے اس کا بدلہ نہیں دیا تو شفیع کو شفعہ کا استحقاق نہ ہوگا، جب موہوب لہُ دے گا تو شفیع موہوب لہُ کو اس بدلہ کی قیمت دے کر شفعہ لے لے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے ایک حصّہ مشترک زمین میں سے وعدے پر خریدا، اب شریک نے شفعے کا دعویٰ کیا، اگر وہ مالدار ہے تو اسی قیمت پر اتنے ہی وعدے پر لے لے گا، اگر اس پر بھروسہ نہ ہو وعدے پر دام ادا کرنے کا، تو جب وہ ایک معتبر شخص کی ضمانت داخل کرے جو مشتری کے برابر ہو، تو شفعہ لے لے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کہ زید مر گیا اور ایک زمین چھوڑ گیا، عمرو اور بکر اس کے بیٹے اس زمین کے وارث ہوئے۔ اب عمرو، سالم اور ناصر دو بیٹے چھوڑ کر مر گیا، عمرو کے حصّے کی زمین سالم و نا صر میں مشترک ہوئی، سالم نے اپنا حصّہ بیچ ڈالا تو شفعے کا دعویٰ ناصر کو پہنچے گا، نہ کہ بکر کو۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص زمین کو خرید کر اس میں درخت لگا دے، یا کنواں کھود دے، پھر ایک شخص اس زمین کے شفعے کا دعویٰ کرتا ہوا آئے، تو اس کو شفعہ نہ ملے گا جب تک کہ مشتری کے کنوئیں اور درختوں کی بھی قیمت نہ دے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے مشترک گھر یا زمین میں سے اپنا حصّہ بیچا، جب بائع کو معلوم ہوا کہ شفیع اپنا شفعہ لے گا، تو اس نے بیع کو فسخ کر ڈالا، اس صورت میں شفیع کا شفعہ ساقط نہ ہوگا، بلکہ اس قدر دام دے کر جتنے کو وہ حصّہ بکا تھا اس حصّے کو لے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے ایک حصّہ مشترک گھر یا زمین کا اور ایک جانور اور کچھ اسباب ایک ہی عقد میں خرید کیا، پھر شفیع نے اپنا حصّہ یا شفعہ اس زمین یا گھر میں مانگا، مشتری کہنے لگا: جتنی چیزیں میں نے خریدی ہیں تو ان سب کو لے لے، کیونکہ میں نے ان سب کو ایک عقد میں خریدا ہے، تو شفیع زمین یا گھر میں اپنا شفعہ لے گا اس طرح پر کہ ان سب چیزوں کی علیحدہ علیحدہ قیمت لگائیں گے، اور پھر ثمن کو ہر ایک قیمت پر حصّہ رسد تقسیم کریں گے، جو حصّہ ثمن کا زمین یا مکان کی قیمت پر آئے اس قدر شفیع کو دے کر وہ حصّہ زمین یا مکان کا لے لے گا، اور یہ ضروری نہیں کہ اس جانور اور اسباب کو بھی لے لے، البتہ اگر اپنی خوشی سے لے تو مضائقہ نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے مشترک زمین میں سے ایک حصّہ خرید کیا، اور سب شفیعوں نے شفعے کا دعویٰ چھوڑ دیا، مگر ایک شفیع نے شفعہ طلب کیا، تو اس شفیع کو چاہیے کہ پورا حصّہ مشتری کا لے لے، یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنے حصّے کے موافق اس میں سے لے لے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک گھر میں چند آدمی شریک ہوں، اور ایک آدمی ان میں سے اپنا حصّہ بیچے سب شرکاء کی غیبت میں، مگر ایک شریک کی موجودگی میں، اب جو شریک موجود ہے اس سے کہا جائے: تو شفعہ لیتا ہے یا نہیں لیتا؟ وہ کہے: بالفعل میں اپنے حصّے کے موافق لے لیتا ہوں، بعد اس کے جب میرے شریک آئیں گے وہ اپنے حصّوں کو خرید کریں گے تو بہتر، نہیں تو میں کل شفعہ لے لوں گا۔ تو یہ نہیں ہو سکتا، بلکہ جو شریک موجود ہے اس سے صاف کہہ دیا جائے گا: یا تو شفعہ کل لے لے یا چھوڑ دے، اگر وہ لے لے گا تو بہتر، نہیں تو اس کا شفعہ ساقط ہو جائے گا۔