موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ
کتاب: مساقاۃ کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسَاقَاةِ
مساقاۃ کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: لَا تَصْلُحُ الْمُسَاقَاةُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْأُصُولِ مِمَّا تَحِلُّ فِيهِ الْمُسَاقَاةُ، إِذَا كَانَ فِيهِ ثَمَرٌ قَدْ طَابَ وَبَدَا صَلَاحُهُ وَحَلَّ بَيْعُهُ. وَإِنَّمَا يَنْبَغِي أَنْ يُسَاقَى مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ. وَإِنَّمَا مُسَاقَاةُ مَا حَلَّ بَيْعُهُ مِنَ الثِّمَارِ إِجَارَةٌ. لِأَنَّهُ إِنَّمَا سَاقَى صَاحِبَ الْأَصْلِ ثَمَرًا قَدْ بَدَا صَلَاحُهُ، عَلَى أَنْ يَكْفِيَهُ إِيَّاهُ وَيَجُذَّهُ لَهُ. بِمَنْزِلَةِ الدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ يُعْطِيهِ إِيَّاهَا، وَلَيْسَ ذَلِكَ بِالْمُسَاقَاةِ، إِنَّمَا الْمُسَاقَاةُ مَا بَيْنَ أَنْ يَجُذَّ النَّخْلَ إِلَى أَنْ يَطِيبَ الثَّمَرُ وَيَحِلَّ بَيْعُهُ. قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ سَاقَى ثَمَرًا فِي أَصْلٍ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَيَحِلَّ بَيْعُهُ، فَتِلْكَ الْمُسَاقَاةُ بِعَيْنِهَا جَائِزَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خالی زمین کو مساقات کے طور پر دینا درست نہیں، بلکہ کرایہ کو دینا درست ہے، اور جو شخص اپنی خالی زمین کسی کو دے اس واسطے کہ زراعت کرے، اور تہائی یا چوتھائی اس میں سے زمین کے عوض میں ٹھہرائے، تو یہ درست نہیں، کیونکہ اس میں دھوکا ہے، معلوم نہیں کھیت اُگتا ہے یا نہیں، پیک کم ہوتی ہے یا زیادہ۔ بلکہ اس کی مثال یہ ہے ایک شخص کسی کو سفر میں ساتھ چلنے کے لیے نوکر رکھے، پھر کہنے لگے میں اس سفر میں جو نفع کماؤں اس کا دسواں حصّہ تو لے، تو یہ درست نہیں۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»