موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْقِرَاضِ
کتاب: قراض کے بیان میں
14. بَابُ الْمُحَاسَبَةِ فِي الْقِرَاضِ
مضاربت میں حساب کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا. فَعَمِلَ فِيهِ فَرَبِحَ. فَأَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ حِصَّتَهُ مِنَ الرِّبْحِ. وَصَاحِبُ الْمَالِ غَائِبٌ. قَالَ: لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا بِحَضْرَةِ صَاحِبِ الْمَالِ، وَإِنْ أَخَذَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ ضَامِنٌ، حَتَّى يُحْسَبَ مَعَ الْمَالِ إِذَا اقْتَسَمَاهُ. قَالَ مَالِكٌ: لَا يَجُوزُ لِلْمُتَقَارِضَيْنِ أَنْ يَتَحَاسَبَا، وَيَتَفَاصَلَا وَالْمَالُ غَائِبٌ عَنْهُمَا، حَتَّى يَحْضُرَ الْمَالُ فَيَسْتَوْفِي صَاحِبُ الْمَالِ رَأْسَ مَالِهِ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ الرِّبْحَ عَلَى شَرْطِهِمَا. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ أَخَذَ مَالًا قِرَاضًا. فَاشْتَرَى بِهِ سِلْعَةً. وَقَدْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ. فَطَلَبَهُ غُرَمَاؤُهُ، فَأَدْرَكُوهُ بِبَلَدٍ غَائِبٍ عَنْ صَاحِبِ الْمَالِ. وَفِي يَدَيْهِ عَرْضٌ مُرَبَّحٌ بَيِّنٌ فَضْلُهُ. فَأَرَادُوا أَنْ يُبَاعَ لَهُمُ الْعَرْضُ فَيَأْخُذُوا حِصَّتَهُ مِنَ الرِّبْحِ، قَالَ: لَا يُؤْخَذُ مِنْ رِبْحِ الْقِرَاضِ شَيْءٌ حَتَّى يَحْضُرَ صَاحِبُ الْمَالِ فَيَأْخُذَ مَالَهُ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ الرِّبْحَ عَلَى شَرْطِهِمَا. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا. فَتَجَرَ فِيهِ فَرَبِحَ. ثُمَّ عَزَلَ رَأْسَ الْمَالِ، وَقَسَمَ الرِّبْحَ. فَأَخَذَ حِصَّتَهُ، وَطَرَحَ حِصَّةَ صَاحِبِ الْمَالِ فِي الْمَالِ. بِحَضْرَةِ شُهَدَاءَ أَشْهَدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ. قَالَ: لَا تَجُوزُ قِسْمَةُ الرِّبْحِ إِلَّا بِحَضْرَةِ صَاحِبِ الْمَالِ، وَإِنْ كَانَ أَخَذَ شَيْئًا رَدَّهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَ صَاحِبُ الْمَالِ رَأْسَ مَالِهِ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بَيْنَهُمَا عَلَى شَرْطِهِمَا. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَعَمِلَ فِيهِ، فَجَاءَهُ فَقَالَ لَهُ: هَذِهِ حِصَّتُكَ مِنَ الرِّبْحِ، وَقَدْ أَخَذْتُ لِنَفْسِي مِثْلَهُ، وَرَأْسُ مَالِكَ وَافِرٌ عِنْدِي، قَالَ مَالِكٌ: لَا أُحِبُّ ذَلِكَ حَتَّى يَحْضُرَ الْمَالُ كُلُّهُ، فَيُحَاسِبَهُ حَتَّى يَحْصُلَ رَأْسُ الْمَالِ. وَيَعْلَمَ أَنَّهُ وَافِرٌ. وَيَصِلَ إِلَيْهِ ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ الرِّبْحَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ يَرُدُّ إِلَيْهِ الْمَالَ إِنْ شَاءَ، أَوْ يَحْبِسُهُ. وَإِنَّمَا يَجِبُ حُضُورُ الْمَالِ، مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ الْعَامِلُ قَدْ نَقَصَ فِيهِ. فَهُوَ يُحِبُّ أَنْ لَا يُنْزَعَ مِنْهُ وَأَنْ يُقِرَّهُ فِي يَدِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا، پھر رب المال کی غیر حاضری میں یہ چاہے کہ نفع میں سے اپنا حصّہ لے لے، تو درست نہیں جب تک کہ رب المال موجود نہ ہو، اگر لے لے گا تو وہ اس کا ضامن رہے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضارب اور رب المال کو درست نہیں کہ نفع کا حساب لگائیں اور مال موجود نہ ہو، بلکہ مال سامنے لانا چاہیے، پہلے رب المال اپنا راس المال لے لے، پھرنفع کو شرط کے مطابق تقسیم کرلیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے کوئی اسباب خریدا اور مضارب کے قرض خواہوں نے اس کو پکڑ کر کہا کہ اس مال کو بیچ کر جتنا حصّہ نفع میں تیرا ہے وہ ہم لے لیں گے، اور رب المال وہاں موجود نہیں تو یہ نہیں ہو سکتا، بلکہ رب المال جب موجود ہو تو وہ اپنا راس المال لے کر پھر نفع کو تقسیم کر دے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا، پھر راس المال جدا کر کے نفع کو گواہوں کے سامنے تقسیم کیا تو یہ درست نہیں، اگر کچھ لے بھی لے تو پھیر دے، جب رب المال آئے تو وہ اپنا راس المال لے کر باقی تقسیم کر دے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا، پھر رب المال کےنفع کا حصّہ لے کر آیا اور کہا کہ یہ تیرا حصّہ ہے نفع کا، اور میں نے بھی اسی قدر لے لیا، اور راس المال تیرا میرے پاس موجود ہے، تو یہ درست نہیں، بلکہ کل مال اور اصل اور نفع مالک کے سامنے لے کر آئے، پھر اس کو اختیار ہے کہ اپنا راس المال لے کر رکھ چھوڑے یا پھر مضارب کے حوالے کر لے۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 6»