حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ وَمَوْلًى لهم ، أنهما حدثاه، عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، " أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ، وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ، ثُمَّ رَفَعَهُمَا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ، فَلَمَّا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا سَجَدَ، سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ ".
الشيخ ابو يحييٰ نورپوري حفظ الله ، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 957
´تشہد میں بیٹھنا اور انگلی سے اشارہ کرنا`
«. . . عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، " فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَكَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا: وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ . . .»
”. . . وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے تو قبلہ کا استقبال کیا پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں پھر اسی طرح اٹھایا، (رفع یدین کیا) وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب کی انگلی) بند کر لی اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا . . .“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /باب كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ: 957]
تشریح:
تشھد میں دائیں ہاتھ کی کیفیات:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر۔ انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے اور اس دوران اپنے انگوٹھےکو درمیان والی انگلی پر رکھتے۔“ [صحیح مسلم 13/579]
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے، جبکہ بائیاں ہاتھ بائیں گھٹے پر۔ نیز 53 کی گرہ بناتے اور سبابہ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔“ [صحیح مسلم: 115/580]
↰ عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔ اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سِرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔
➌ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«رأيت النبى صلى الله عليه وسلم قد حلق بالابهام والوسطى، ورفع التى تليهما، يدعو بها فى التشهد.»
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تشہد میں انگوٹھے اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دائرہ بنایا ہوا تھا اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی مبارک کو اٹھا کر اس کے ساتھ دُعا فرما رہے تھے۔“ [سنن أبى داؤد: 957، سنن النسائي: 1266، سنن ابن ماجه:، 912 واللفظ لهٔ، وسندهٔ صحيح]
↰ معلوم ہوا کہ تشہد میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی کئی کیفیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ تمام صورتیں جائز ہیں، ان میں سے کوئی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔ البتہ ان سب احادیث میں شہادت والی انگلی کے ساتھ اشارے کا ذکر یکساں موجود ہے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 45
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 727
´رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین`
«. . . ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ: وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَابا . . .»
”. . . پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت پہنچے اور کلائی پر رکھا، اس میں یہ بھی ہے کہ پھر میں سخت سردی کے زمانہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو بہت زیادہ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا، ان کے ہاتھ کپڑوں کے اندر ہلتے تھے . . .“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 727]
فقہ الحدیث
↰ واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ [عمدة القاري از عيني حنفي: 274/5]
↰ رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔
ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 11، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 723
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا، اور انہیں اپنے کپڑے میں داخل کر لیا، جب آپ نے رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ (چادر سے) نکالے پھر رفع یدین کیا، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کیا تو رفع یدین کیا، پھر سجدہ کیا اور اپنی پیشانی کو دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں رکھا، اور جب سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو رفع یدین ۱؎ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے۔ محمد کہتے ہیں: میں نے حسن بصری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، کرنے والوں نے ایسا ہی کیا اور چھوڑنے والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ أبوداود کہتے ہیں: اس حدیث کو ہمام نے بھی ابن جحادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 723]
723۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث میں «واذا رفع رأسه من السجود ايضا رفع يديه» ”یعنی سجدوں میں رفع یدین۔“ کے الفاظ شاذ ہیں۔ جیسے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے خود فرمایا ہے۔ نیز صحیح مسلم: حدیث: 390، سنن کبریٰ بیہقی: 672، معرفۃ السنن والآثار: 1؍ 543 اور مسند احمد: 4؍ 316 میں بھی یہ روایت آئی ہے۔ ان میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح ابن حبان: 5؍ 173 (حدیث: 1862) میں بھی بطریق عبدالوارث بن سعد عن محمد بن جحاوہ روایت بیان بیان ہوئی ہے اس میں بھی سجدوں کے درمیان رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 723
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 724
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے بالمقابل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 724]
724۔ اردو حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ اسی طرح رفع الیدین کرنا کہ انگوٹھے کانوں کے برابر آ جائیں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ کسی بھی صحیح حدیث میں یہ بات بیان نہیں ہوئی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 724
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 725
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
عبدالجبار بن وائل کہتے ہیں: مجھ سے میرے گھر والوں نے بیان کیا کہ میرے والد نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیر کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 725]
725۔ اردو حاشیہ:
یعنی «الله اكبر» کہنے اور ہاتھ اٹھانے کا عمل ایک ساتھ ہوتا تھا۔ اور اس میں توسع ہے کہ تلفظ تکبیر اور رفع الیدین اکٹھے ہوں یا آگے پیچھے سب ہی جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 725
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 727
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
عاصم بن کلیب نے اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت پہنچے اور کلائی پر رکھا، اس میں یہ بھی ہے کہ پھر میں سخت سردی کے زمانہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو بہت زیادہ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا، ان کے ہاتھ کپڑوں کے اندر ہلتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 727]
727۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت وائل بن حجر سن 9 ہجری میں مسلمان ہوئے ہیں۔ یہ اگلے سال سردی کے موسم میں دوبارہ تشریف لائے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری جاڑا تھا اور اس موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو رفع الیدین کرتے دیکھا۔
➋ قیام میں ہاتھ باندھنے کی کیفیت میں ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھنا یا اسے پکڑ لینا دونوں جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 727
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 728
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے بالمقابل اٹھایا، پھر میں (ایک زمانہ کے بعد) لوگوں کے پاس آیا تو میں نے انہیں دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ اپنے سینوں تک اٹھاتے اور حال یہ ہوتا کہ ان پر جبے اور چادریں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 728]
728۔ اردو حاشیہ:
«برانس» «برنس» کی جمع ہے۔ «برنس» ہر وہ کپڑا ہے جس میں ٹوپی لگی ہو، جبّہ ہو، قیمیص یا بارانی کوٹ۔ بعض نے کہا، لمبی ٹوپی جس کو لوگ شروع اسلام میں پہنا کرتے تھے۔ [لغات الحديث، علامه وحيد الزمان]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 728
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 957
´تشہد میں کس طرح بیٹھے؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے تو قبلہ کا استقبال کیا پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں پھر اسی طرح اٹھایا، (رفع یدین کیا) وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب کی انگلی) بند کر لی اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 957]
957۔ اردو حاشیہ:
الفاظ حدیث «وحد مرفقه الايمن على فخذه اليمني» کے دو ترجمے کئے گئے ہیں ایک یہ کہ ”کہنی کی ہڈی کو اپنی ران پر رکھا“۔ جیسے کہ آئندہ حدیث [991] میں ہے۔ نمیر ابومالک الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داہنی کلائی اپنی دایئں ران پر رکھی ہوئی تھی . . . محدث عصر شیخ البانی رحمہ اللہ اسی طرف مائل ہیں، جبکہ ابن ارسلان اور سندھی وغیرہ کہنی کو ران سے اوپر اٹھائے رکھنا مراد لیتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 957
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 888
´نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا بایاں ہاتھ پکڑتے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 888]
888 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا جائے گا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ مالکیہ اور اہل تشیع ہاتھ چھوڑنے کے قائل ہیں مگر ان کے پاس اس کی ایک بھی دلیل نہیں، ٹوٹی پھوٹی بھی نہیں۔
➋ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے صحیح ابن خزیمہ (1؍479) میں اور حضرت قبیصہ بن ہلب رضی اللہ عنہ سے مسند احمد: (5؍226) میں اور حضرت طاؤس رحمہ اللہ سے سنن ابی دائود [الصلاة، حدیث: 759]
میں روایات ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھے جائیں۔ یہ روایات صحیح ہیں۔ ابوداود کی روایت مرسل ہے جو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک قابل حجت ہے۔ ناف سے نیچے کی روایات سب کی سب ضعیف ہیں، لہٰذا احادیث صحیحہ کی رو سے ہاتھ سینے ہی پر باندھے جائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حالت ایک سائل کی سی ہے اور اس طرح نمازی فضول حرکات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور یہ خشوع خضوع کے قریب تر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي: 11؍135۔ 150، وسنن ابوداود (اردو) الصلاة، حدیث: 759، طبع دارالسلام]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 888
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 890
´نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر کہاں رکھے؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسے پڑھتے ہیں ؛ چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھائے کہ انہیں اپنے کانوں کے بالمقابل لے گئے، پھر آپ نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت)، کلائی اور بازو پر رکھا ۱؎، پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، پھر جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل رکھا، پھر آپ نے قعدہ کیا، اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کا سرا اپنی داہنی ران کے اوپر اٹھائے رکھا، پھر آپ نے اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند ۲؎ کر لیا، اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ (دائرہ) بنا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی، تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 890]
890 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ (ہتھیلی) کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اس طرح رکھے کہ ہتھیلی کا اگلا حصہ (انگلیاں) بائیں کلائی پر اور پچھلا حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو۔ یہ تب ہے جب ہاتھ سے مراد صرف ہتھیلی ہو۔ ہاتھ سے کہنی تک بازو بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کنارے بائیں کہنی تک پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی درست ہے کیونکہ ایک روایت میں ذراع کو ذراع پر رکھنے کا ذکر ہے اور ذراع کہنی تک ہوتا ہے۔ لیکن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل سے اس حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس (ذراع والی) صورت کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
➋ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں، جو کہ سنن نسائی میں نمبر 888 کے تحت گزری ہے، دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا بھی ذکر ہے۔ تو دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مختلف اوقات میں دونوں پر عمل ممکن ہے، کبھی ایک پر عمل کر لے اور کبھی دوسری پر۔ دونوں طرح صحیح ہے۔ اس طرح دونوں روایات پر عمل ہو جائے گا۔ لیکن دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دینا کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی تین انگلیاں بائیں پر رکھے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے جوڑ کو پکڑلے، باطل ہے کیونکہ اس صورت میں حدیث میں وارد دونوں طریقوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی تیسری شکل بن جاتی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لے اور کبھی دائیں سے بائیں کو پکڑلے۔ واللہ أعلم۔
➌ ”دائیں کہنی کا کنارہ ران پر رکھا۔“ اس کنارے سے کہنی کا کلائی والا کنارہ مراد ہے۔ گویا کہنی کو ران کی جڑوالی طرف پر رکھ کر کھڑا کر لے اور کلائی کو ران پر بچھالے۔ مگر یہ صورت صرف تورک (قعدہ میں پاؤں کی بجائے زمین پر بیٹھنا اور پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکال لینا) کی صورت میں ممکن ہے۔ پاؤں پر بیٹھنے کی صورت میں صرف ہتھیلیاں ران اور گھٹنوں پر ہوں گی اور بازو قوس کی تانت کی طرح ہوں گے۔
➍ تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اس طرح رکھا جائے کہ انگلیاں گھٹنے پرہوں اور ہتھیلیاں ران پر مگر دایاں ہاتھ بند کر کے رکھا جائے۔ اس حدیث میں بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنارے کی دو انگلیاں بند کرے۔ درمیانی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنا کر تشہد کی انگلی کو کھلا چھوڑ دے جس طرح کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
➎ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران تشہد میں سلام تک انگلی کو حرکت دینا مسنون ہے۔ «يُحَرِّكُ» فعل مضارع ہے جو یہاں استمرار کا فائدہ دے رہا ہے کیونکہ «يَدْعُو بِهَا» اس سے حال ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دے رہے تھے، اور درآں حالیکہ آپ اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ نامور محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفیه تحریكھا دائما، اذ الدعاء بعد التشھد» ”اس حدیث سے پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ دعا تشہد کے بعد (سلام تک) ہوتی ہے۔“ [عون المعبود، الصلاة، باب الإشارة فی التشھد، حدیث: 898]
سنن ابی داود کی ایک روایت میں «لَايُحَرِّكُهَا» کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شاذ اور ضعیف ہیں۔ ان الفاظ کو روایت کرنے میں محمد بن عجلان سے زیاد بن سعد متفرد ہے۔ عامر بن عبداللہ سے ابن عجلان کے علاوہ باقی دو ثقہ راویان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، نیز زیاد کے علاوہ محمد بن عجلان کے باقی چار ثقہ شاگرد یہ الفاظ بیان نہیں کرتے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر اس میں یہ اضافہ مذکور نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 175]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں محمد بن عجلان کو تیسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور ان الفاظ میں ابن عجلان کی عامر بن عبداللہ سے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا «لَا يُحَرِّكُهَا» کے الفاظ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ درست موقف یہی ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے رہنا بھی جائز ہے۔ لیکن ایسا وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے کیونکہ اکثر روایات میں صرف اشارے کا ذکر ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کیا ہے انہوں نے اسے بیان نہیں کیا۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل اشارے کا تھانہ کہ حرکت دینے کا۔ اور اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ 53کی گرہ لگا کر مسنون تشہد سے لے کر آخر تک انگلی کو کھڑا رکھنا۔
➏ اشارہ اور حرکت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لغت میں ان کے الگ الگ معانی ہیں۔ اس لیے یہ دو مختلف فعل ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ کبھی آپ نے ایک طریقہ اختیار کیا اور کبھی دوسرا۔ یہی تطبیق ان شاء اللہ اقرب الی الصواب ہے۔ دونوں (اشارے اور حرکت) کو تطبیق کے ذریعے سے ایک ہی تشہد میں یکجا کرنا محل نظر لگتا ہے کیونکہ دونوں کلمات کا مصداق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ واللہ أعلم۔
➐ احناف کے نزدیک لَا پر انگلی اوپر اٹھائے اور الا پر نیچے کرے۔ گویا اٹھانا نفی کی علامت ہے اور گرانا اثبات کی۔ یہی لا اور الا کے معنی ہیں۔ شوافع کے نزدیک الا اللہ پر انگلی اٹھائے اور پھر نیچے کرے کیونکہ الا اللہ میں توحید کا اثبات ہے، لہٰذا انگلی کے ساتھ فعلا بھی ایک اللہ کی توحید بیان کرے۔ تاہم ان میں سے کسی کے پاس اس مقام پر انگلی کے اٹھانے اور گرانے کی کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ صحیح موقوف کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 890
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1056
´رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے، اور جب رکوع کرتے، اور «سمع اللہ لمن حمده» کہتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ قیس بن سلیم (راوی حدیث) نے دونوں کانوں تک اشارہ کر کے دکھایا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1056]
1056۔ اردو حاشیہ: رفع الیدین کی بحث احادیث 1025، 1026، 1027 میں تفصیلاً گزر چکی ہے۔ یہ قطعاً سنت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1056
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1103
´سجدہ میں دونوں ہاتھ رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ضرور دیکھوں گا (کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں نے دیکھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے دونوں انگوٹھوں کو آپ کی دونوں کانوں کے قریب دیکھا، اور جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو ”اللہ اکبر“ کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع اللہ لمن حمده» کہا، پھر آپ نے ”اللہ اکبر“ کہا، اور سجدہ کیا، آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی دونوں کانوں کی اس جگہ تک اٹھے جہاں تک آپ نے شروع نماز میں انہیں اٹھایا تھا (یعنی انہیں دونوں کانوں کے بالمقابل اٹھایا)۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1103]
1103۔ اردو حاشیہ: آغاز نماز میں رفع الیدین کانوں کے برابر بھی کیا جا سکتا ہے اور کندھوں کے برابر بھی۔ اسی طرح سجدے میں ہاتھ کانوں کے برابر بھی رکھے جا سکتے ہیں اور کندھوں کے برابر بھی اور اس تطبیق کے مطابق بھی جو رفع الیدین کے بارے میں بیان ہو چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1103
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1160
´پہلے تشہد کے لیے بیٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کے رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کر لیتے، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو بھی ایسے ہی اٹھاتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پیر کو بچھا دیتے، اور دائیں کو کھڑا رکھتے، اور اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے، اور (شہادت کی) انگلی دعا کے لیے کھڑی رکھتے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے۔ وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں آئندہ سال ان لوگوں کے پاس آیا، تو میں نے لوگوں کو جبوں کے اندر اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1160]
1160۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ پہلی دفعہ غزوۂ تبوک کے بعد 9ھ میں آئے تھے اور مسلمان ہوئے۔ پھر دوبارہ (اس روایت کے مطابق) اگلے سال، یعنی 10ھ میں آئے۔ یہ رمضان یا شوال کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک چھ سات ماہ بنتے ہیں۔ گویا وفات سے اتنا عرصہ قبل تک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ منسوخ کب ہوا؟ بینوا توجروا۔
➋ تشہد پڑھتے وقت انگشت شہادت سے اشارہ کرنا چاہیے اور یہ انگلی سلام پھیرنے تک اٹھی رہنی چاہیے اور بسا اوقات کسی نماز میں سلام پھیرنے تک پورے تشہد میں بدستور حرکت بھی دی جا سکتی ہے۔ اس کی تفصیل حدیث نمبر 890 اور اس کے فوائد و مسائل میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1160
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1264
´آخری رکعت میں بیٹھنے کی کیفیت (تورک) کا بیان؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح اٹھاتے) اور جب آپ (قعدہ میں) بیٹھتے تو بایاں (پاؤں) لٹاتے، اور دایاں (پاؤں) کھڑا رکھتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے، اور درمیان والی انگلی اور انگوٹھے دونوں کو ملا کر گرہ بناتے، اور اشارہ کرتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1264]
1264۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بیٹھنے کا عام طریقہ بیان کیا گیا ہے مگر اوپر والی روایت میں سلام والے تشہد میں بیٹھنے کا مخصوص طریقہ بیان کیا گیا ہے اور یہ اصول ہے کہ مفصل روایت پر عمل کیا جاتا ہے اور مبہم کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1264
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1266
´نماز میں بیٹھنے کی حالت میں کہنیوں کے رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر رہوں گا کہ آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور قبلہ رو ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھایا کہ وہ آپ کے کانوں کے بالمقابل ہو گئے، پھر اپنے دائیں (ہاتھ) سے اپنے بائیں (ہاتھ) کو پکڑا، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو ان دونوں کو پھر اسی طرح اٹھایا، اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھا، پھر جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر ان دونوں کو اسی طرح اٹھایا، پھر جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اسی جگہ پر رکھا ۱؎، پھر آپ بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران سے دور رکھا، پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں، اور حلقہ بنایا، اور میں نے انہیں اس طرح کرتے دیکھا۔ بشر نے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1266]
1266۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 890۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1266
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:909
909- سیدنا وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز کرتے تھے، تو رفع یدین کرتے تھے، جب رکوع میں جاتے تھے اور جب رکوع سے سراٹھاتے تھے اس وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز نے دوران بیٹھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بائیں ٹانگ کو بچھالیتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا ر کھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں ہاتھ بائیں زانوں پر رکھتے تھے اور اسے کھول کے رکھتے تھے، جبکہ دایاں ہاتھ دائیں زانوں پر رکھتے تھے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:909]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز میں رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے کہ نماز کے شروع میں، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کر نی چا ہیے، اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ چادر کے اندر سے بھی رفع الیدین کرنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 908