موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
40. بَابُ جَامِعِ الدَّيْنِ وَالْحِوَلِ
قرض کے مختلف مسائل کا بیان
قَالَ مَالِك: لَا يَنْبَغِي أَنْ يُشْتَرَى دَيْنٌ عَلَى رَجُلٍ غَائِبٍ وَلَا حَاضِرٍ إِلَّا بِإِقْرَارٍ مِنَ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ وَلَا عَلَى مَيِّتٍ، وَإِنْ عَلِمَ الَّذِي تَرَكَ الْمَيِّتُ وَذَلِكَ أَنَّ اشْتِرَاءَ ذَلِكَ غَرَرٌ لَا يُدْرَى أَيَتِمُّ أَمْ لَا يَتِمُّ، قَالَ: وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنَّهُ إِذَا اشْتَرَى دَيْنًا عَلَى غَائِبٍ أَوْ مَيِّتٍ، أَنَّهُ لَا يُدْرَى مَا يَلْحَقُ الْمَيِّتَ مِنَ الدَّيْنِ الَّذِي لَمْ يُعْلَمْ بِهِ، فَإِنْ لَحِقَ الْمَيِّتَ دَيْنٌ، ذَهَبَ الثَّمَنُ الَّذِي أَعْطَى الْمُبْتَاعُ بَاطِلًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دَین کا خریدنا درست نہیں خواہ غائب پر ہو یا حاضر پر، مگر جب شخص حاضر اس کا اقرار کرے، اسی طرح جو دَین میّت پر ہو اس کا بھی خریدنا درست نہیں، کیونکہ اس میں دھوکا ہے، معلوم نہیں وہ قرض ملتا ہے یا نہیں، اس واسطے اگر میّت یا غائب پر اور بھی دَین نکلا تو اس کے پیسے مفت گئے، دوسرے یہ کہ وہ قرض اس کی ضمان میں داخل نہیں ہوا، اگر نہ نپٹا تو اس کے پیسے مفت گئے۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 85»