موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْمُدَبَّرِ
کتاب: مدبر کے بیان میں
3. بَابُ الْوَصِيَّةِ فِي التَّدْبِيرِ
مدبر کرنے کی وصیت کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ وَلَدٍ وَلَدَتْهُ أَمَةٌ، أَوْصَى بِعِتْقِهَا وَلَمْ تُدَبَّرْ. فَإِنَّ وَلَدَهَا لَا يَعْتِقُونَ مَعَهَا إِذَا عَتَقَتْ. وَذَلِكَ أَنَّ سَيِّدَهَا يُغَيِّرُ وَصِيَّتَهُ إِنْ شَاءَ. وَيَرُدُّهَا مَتَى شَاءَ. وَلَمْ يَثْبُتْ لَهَا عَتَاقَةٌ. وَإِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ رَجُلٍ قَالَ لِجَارِيَتِهِ: إِنْ بَقِيَتْ عِنْدِي فُلَانَةُ حَتَّى أَمُوتَ، فَهِيَ حُرَّةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس لونڈی کے آزاد کرنے کی وصیت کی اور اس کو مدبر نہ کیا، تو اس کی اولاد اپنی ماں کے ساتھ آزاد نہ ہوگی، اس لیے کہ مولیٰ کو اس وصیت کے بدل ڈالنے کا اختیار تھا نہ ان کی ماں کے لیے آزادی ثابت ہوئی تھی، بلکہ یہ ایسا ہے کوئی کہے: اگر فلانی لونڈی میرے مرنے تک رہے تو وہ آزاد ہے، پھر وہ اس کے مرنے تک رہی تو آزاد ہو جائے گی، مگر مولیٰ کو اختیار ہے کہ موت سے پیشتر اس کو یا اس کی اولاد کو بیچے، تو آزادی کی وصیت اور تدبیر کی وصیت میں سنتِ قدیمہ کی رو سے بہت فرق ہے، اگر وصیت مثل تدبیر کے ہوتی تو کوئی شخص اپنی وصیت میں تغیر و تبدل کا اختیار نہ رکھتا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 40 - كِتَابُ الْمُدَبَّرِ-ح: 3»