Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
9. باب اسْتِحْبَابِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْمَنْكِبَيْنِ مَعَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالرُّكُوعِ وَفِي الرَّفْعِ مِنَ الرُّكُوعِ وَأَنَّهُ لاَ يَفْعَلُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُودِ:
باب: تکبیر تحریمہ کے ساتھ رکوع میں اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا استحباب، اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 861
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، كلهم عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ، حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ، وَقَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُهُمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ".
۔ سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد (عبد اللہ بن عمرؓ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا: جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ انہیں کندھوں کے برابر لے آتے اور رکوع سے پہلے اور (اس وقت بھی) جب رکوع سے سر اٹھاتے۔ آپ دو سجدوں کے درمیان انہیں نہ اٹھاتے تھے۔
حضرت سالم اپنے باپ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا فرماتے اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے اور رکوع سے پہلے بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور سجدوں کے درمیان ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 861 کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 861  
فوائد و مسائل:
مانعین رفع یدین کی ایک دلیل، صحيح ابي عوانة: 90/2 سے:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
«رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، اذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه واذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين.» [صحيح ابي عوانة:90/2]
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتے۔۔۔ اور جب رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
تبصرہ:
➊ اس حدیث کو عدم رفع الیدین کے ثبوت میں وہی پیش کر سکتا ہے جو شرم و حیا سے عاری اور علمی بددیانتی کا مرتکب ہو، کسی محدث نے اس حدیث کو رفع الیدین نہ کرنے پر پیش نہیں کیا۔
دراصل «لا يرفعهما» والے الفاظ کا تعلق اگلے الفاظ «بين السجدتين» کے ساتھ تھا، اصل میں یوں تھا: «ولا يرفعهما بين السجدتين» اور آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
بعض الناس نے ان الفاظ کے شروع سے واؤ گرا کر اس کا تعلق پچھلی عبارت سے جوڑنے کی جسارت کی ہے، جبکہ یہ واؤ مسند ابی عوانہ کے دوسرے نسخوں میں موجود ہے۔
➋ اس روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے یہی روایت ان کے چھ ثقہ شاگرد (آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے) کے الفاط کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ [صحيح مسلم:168/1، ح:390]
➌ امام ابوعوانہ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے «ولا يرفعهما بين السجدتين» کے الفاظ روایت کیے ہیں، جبکہ معنیٰ ایک ہی ہے، یعنی آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
➍ امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے:
«بيان رفع اليدين فى افتتاح الصلاة قبل التكبير بحذاء منكبييه وللركوع ولرفع رأسه من الركوع، وانه لا يرفع بين السجدتين.»
نماز کے شروع میں تکبیر سے پہلے، رکوع کے لیے اور رکوع سے سر اٹھانے کے لیے رفع الیدین کا بیان اور اس بات کا بیان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
↰ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک محدث رفع الیدین کے ثبوت کا باب قائم کرے اور حدیث وہ لائے جس سے رفع الیدین کی نفی ہو رہی ہو، یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی سنار اپنی دکان پر گوشت اور سبزی کا بورڈ سجا دے۔
➎ خود امام ابوعوانہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی اور امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہما کی روایات جن میں رکوع کا جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا ثبوت ہے، اسی روایت کی طرح ہیں، لہٰذا یہ حدیث رفع الیدین کے ثبوت پر چوٹی کی دلیل ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 12، حدیث/صفحہ نمبر: 11   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 735، 736، 737  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]
فوائد و مسائل:
اہل فہم اور جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کے اتباع کا شوق عطا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔ ہاں اتنا واضح ہو کہ رفع الیدین کی حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے، حتیٰ کہ چند ائمہ مثلاً:
◈ امام ابن حزم، سیوطی اور مجدد الدین الفیروز آبادی وغیرہم اس حدیث کے متواتر ہونے کے قائل ہیں [المحليٰ لابن حزم: 934، الازها، المتناثره فى الاخبار المتواتره للسيوطي: 48، سفر السعادة: 14]
◈ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اپنے استاذ امام عراقی سے نقل فرمایا ہے کہ:
میں نے اس حدیث کے روایت کنندہ صحابہ کا تتبع کیا تو پچاس کو پہنچا۔ [فتح الباري: 149/2]
↰ اور اس مسکین نے بھی ان کا تتبع کیا تو باوجود کم علمی کے اور قلت الاطلاع علیٰ نسب الحدیث کے بیس کو پہنچا، جن کے اسماء گرامی یہ ہیں:
➊ ابوبکر صدیق
➋ عمر بن الخطاب
➌ علی بن ابی طالب
➍ ابن عمر
➎ ابن عباس
➏ ابن الزبیر
➐ ابوہریرۃ
➑ ابوموسیٰ اشعری
➒ ابوحمید ساعدی
➓ محمد بن مسلمہ
⓫ ابواسید
⓬ مالک بن الحویرث
⓭ وائل بن حجر
⓮ سہل بن سعد
⓯ ابوقتادہ
⓰ انس بن مالک
⓱ جابر بن عبداللہ
⓲ براء بن عازب
⓳ عمر اللیثی
⓴ معاذ بن جبل [ديكهئيے اثبات رفع اليدين، جلاء العينين، تمييز الطيب]
نیز حافظ زیلعی نصب الرایہ میں امام بیہقی کے خلافیات سے ایک حدیث شریف لائے ہیں، جس سے رفع الیدین کے متعلق مواطن مذکورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امر ثابت ہوتا ہے۔ [نصب الراية فى التخريج احاديث هدايه]

نیز مالک بن الحویرث کی حدیث سے بھی امر مستفاد ہے۔ اس لئے چند محدثین مثلاً:
➊ محمد بن سیرین،
➋ حمیدی،
➌ اوزاعی،
➍ امام احمد بن حنبل،
➎ امام ابن خزیمہ اور
➏ امام ابن حبان وغیرہم
رفع الیدین کے وجوب کے قائل ہیں اور احقر کے ہاں بھی یہ قول مستند ہے۔ اس لیے کہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے جب تک اس کے لئے دلیل صارف نہ پائی جائے اور «فيما نحن فيه امر» کا بھی کوئی دلیل صارف نہیں ہے۔

◈ اور جو عبداللہ بن مسعود والی حدیث ہے اس کو محدثین نے ضعیف بتلایا ہے۔ [جزء رفع اليدين للبخاري طبع دهلي]
↰ اور امام ابوحنیفہ کے تلمیذ رشید امیر المجاہدین والزاہدین عبداللہ بن المبارک نے اس حدیث کے متعلق یوں کہا ہے: «لم يثبت حديث ابن مسعود . . . .» الخ [سنن ترمذي ابواب الصلوة، باب رفع اليدين عند الركوع]

◈ باقی رہی «كاذناب الخيل الشمس» والی حدیث، سو وہ تو سلام کے متعلق ہے اور اس کا رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ [جزء رفع اليدين للبخاري]
↰ اس لئے کہ اگر اس حدیث کا تعلق رفع الیدین کے ساتھ مانا جائے تو پھر مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان میں کوئی تعلق اور مناسبت نہیں رہتی اور شارع بارع علیہ السلام کا یہ کلام _ بن جاتا ہے۔ «حاشاًلله»
کیونکہ آپ خالی الذہن ہو کر غور کریں تو آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ مذکورہ ہیبت پر رفع الیدین کرنے اور گھوڑے کی دم ہلانے کے درمیان کتنا ہی بون بعید ہے۔ ہاں اگر سلام کے جواب کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو پھر مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان میں مناسبت پوری طرح ہے۔

نیز اگر اس کا رفع الیدین در اوقات مخصوصہ کے ساتھ تعلق مانا جائے تو بھی یہ حدیث حنفیہ کے لئے مذہب شکن ہے۔ کیونکہ وہ تکبیرات عیدین اور وتر میں قنوت کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔ «فما هو جوابهم فهو جوابنا» معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا امر کا کوئی قرینہ صارفہ نہیں ہے۔
اس لئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قاعدہ تھا جیسا کہ ان سے امام بخاری کے جزء رفع الیدین میں اور سنن دارقطنی میں مروی ہے کہ:
«اذا راي رجلا لا يرفع يديه اذا ركع واذا رفع رماه بالحصيٰ» [جزء رفع اليدين للبخاري، سنن دارقطني مع التعليق المغني: 392/1، 1105]
آپ جس کو دیکھتے کہ وہ رکوع کی طرف جاتے اور رکوع سے واپس آنے کے وقت رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کو کنکریاں مارتے تھے۔

اور یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسا جلیل القدر امام کسی کو مستحب کے ترک کرنے پر سزا دے، بلکہ ضرور ان کے ہاں رفع الیدین کا وجوب ثابت ہوا ہے اور اگر مستحب چھوڑنے پر بھی سزا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو جس نے کہا کہ «لا يزيد على هذا ولا انقص» میں اس کو بہشتی کہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ «فاعتبروا يا اولي الابصار .»
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 38   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 216  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]
لغوی تشریح:
«يُحَاذِيّ» «يُقَابِلُ» کے معنی میں ہے، یعنی بالمقابل یا برابر۔
«ثُمَّ يُكَبِّر» افتتاح صلاۃ کے وقت پہلے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر اللہ اکبر کہتے۔ اس کے برعکس پہلے تکبیر، پھر رفع الیدین اور تکبیر کے ساتھ ہی رفع الیدین کا ذکر بھی حدیث میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس فعل میں وسعت ہے۔ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت جسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور مصنف نے اسی پر انحصار کیا ہے، اس میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع الیدین کا ذکر ہے۔
«نَحْوَ حَدِيث ابْنِ عُمَر» یعنی جس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں تین مواقع پر رفع الیدین ثابت ہے اسی طرح اس میں ہے۔
«فُرُوع أُذُنَيْهِ» کانوں کے اطراف، یعنی اوپر والے کنارے۔ یہ اس روایت کے مخالف ہے جس میں رفع الیدین کندھوں تک کرنے کا ذکر ہے۔ دونوں روایتوں میں تطبیق و موافقت اس طرح ہے کہ ہاتھوں کی ہتھیلیاں تو کندھوں کے برابر اور انگلیوں کے پورے کانوں کے مقابل تک اٹھائے جائیں۔ یہ تطبیق اچھی ہے۔ اور اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے توسع پر محمول کیا جائے کہ کبھی کانوں کے برابر اور کبھی کندھوں کے برابر اٹھائے۔

فوائد و مسائل:
➊ تین جگہوں پر رفع الیدین کی احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ جس کی مساوات و برابری نہیں کی جا سکتی اور اس قدر صحت کے ساتھ ثابت ہیں کہ رد نہیں کی جا سکتیں۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین مسنون ہے۔
➋ بعض احادیث سے دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کی ابتدا میں بھی رفع الیدین ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحيح البخاري، الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث: 739، ومسند أحمد: 145/2، وسنن أبى داود، الصلاة، باب من ذكر أنه يرفع يديه إذا قام من الثنتين، حديث: 743، 744]
اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعی، احمد، ابوثور، ابن مبارک، اسحاق بن راہویہ اور صحیح روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے، بلکہ زاد المعاد اور التلخیص الحبیر وغیرہ میں مروی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم تادم زیست رفع الیدین کرتے رہے۔ خلفائے راشدین بلکہ باقی عشرہ مبشرہ سے بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ اس کے برعکس رفع الیدین نہ کرنے کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں۔ جس کی تفصیل [فتح الباري، التلخيص الحبير اور جلاء العينين فى تخريج روايات البخاري فى جزء رفع اليدين] وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی شہادت اس مسئلے میں اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہمیشہ عمل رہا۔
چنانچہ منقول ہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے بعد 9 ہجری میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ [البداية والنهاية: 75/5، وشرح العيني على صحيح البخاري: 43/9] اور پھر واپس اپنے ملک چلے گئے۔ آئندہ سال جب دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا۔ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کپڑوں کے نیچے سے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ یہ 10 ہجری کے آخری مہینے تھے۔ اس کے بعد 11 ہجری میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ زندگی کے آخری حصے تک رفع الیدین کرتے رہے۔ یہ عمل منسوخ ہوا نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ کوفے کے علاوہ باقی تمام بلاد اسلامیہ میں اس پر عمل رہا۔ فقہائے اسلام کی اکثریت نے اس کو پسند کیا ہے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی، موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند أحمد، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مسند ابی عوانہ، سنن دارقطنی اور سنن کبری بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 216   

  الشيخ ابن الحسن محمدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 722  
´ہر تکبیر پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین فرمانا`
«. . . يَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ . . .»
. . . (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی . . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 722]
فوائد و مسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رکوع سے پہلے کہی جانے والی ہر تکبیر پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین فرماتے تھے۔ تکبیرات عیدین بھی چونکہ رکوع سے پہلے ہوتی ہیں، لہٰذا ان میں رفع الیدین کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے۔ ائمہ حدیث نے بھی اس حدیث کو تکبیرات عیدین میں رفع الیدین پر دلیل بنایا ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ
◈ امام، ابوعبداللہ، محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نماز جنازہ اور عیدین کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے گا، حدیث نبوی کی بنا پر بھی اور یہ قیاس کرتے ہوئے بھی کہ قیام کی تکبیر پر رفع الیدین کیا جاتا ہے۔ [الام: 127/1]

امام ابن منذر رحمہ اللہ
◈ امام، ابوبکر، محمد بن ابراہیم، ابن منذر، نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس لیے بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام میں ہر تکبیر پر رفع الیدین بیان فرمایا ہے اور عیدین و جنازہ کی تکبیرات بھی قیام ہی میں ہیں، لہٰذ ان تکبیرات میں رفع الیدین ثابت ہو گیا۔ [الأوسط فى السنن والاجماع والاختلاف: 5/ 428]
◈ نیز فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کو سنت بنایا ہے۔ یہ ساری صورتیں قیام کی حالت میں تکبیر کی ہیں۔ لہٰذا جو بھی شخص قیام کی حالت میں تکبیر کہے گا، وہ اسی سنت سے استدلال کرتے ہوئے رفع الیدین کرے گا۔ [الأوسط: 4/ 282]

امام بیہقی رحمہ اللہ
◈ امام، ابوبکر، احمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ، (384۔ 458ھ) نے مذکورہ بالا حدیث پر یوں باب قائم فرمایا ہے:
«باب رفع اليدين فى تكبير العيد»
عید کی تکبیرات میں رفع الیدین کا بیان۔ [السنن الكبري: 411/3]

امام اوزاعی رحمہ اللہ
◈امام عبدالرحمٰن بن عمرو، اوزاعی رحمہ اللہ (م: 157ھ) سے تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
«نعم ارفع يديك مع كلهن»
ہاں، تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرو۔ [احكام العيدين للفريابي: 136، وسنده صحيح]

امام مالک رحمہ اللہ:
امام مالک بن انس رحمہ اللہ (93-179ھ) سے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
«نعم، ارفع يديك مع كل تكبيرة، ولم اسمع فيه شيئا»
ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو، میں نے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں سنا۔ [احکام العیدین للفریابی: ۱۳۷، وسندہ صحیح]

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام اہل سنت، احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164-241ھ) فرماتے ہیں:
«يرفع يديه فى كل تكبيرة»
ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے گا۔ [مسائل الامام احمد بروايه ابي داؤد: 87]

امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (161۔ 238ھ) کا بھی یہی مذہب ہے۔ [مسائل الامام احمد و اسحاق: 4054/8، م: 2890]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث/صفحہ نمبر: 12   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 114  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 735، من حديث ما لك به ورواه مسلم 390، من حديث ابن شهاب الزهري به]
تفقه:
➊ نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد کا رفع یدین درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے:
◈ سیدنا عبد الله بن عمر، سیدنا مالک بن حویرث [صحيح بخاري: 737 وصحيح مسلم: 391]
◈ سیدنا وائل بن حجر [صحيح مسلم: 401]
◈ سیدنا ابوحمید الساعدی [سنن الترمذي: 304 وقال: هذا حديث حسن صحيح و صححه ابن خزيمه: 587، وابن حبان، الاحسان: 1864، وابن الجارود: 192، وسنده صحيح]
◈ سیدنا ابوبکر الصدیق [سنن الكبريٰ للبيهقي 73/2 وسنده صحيح]
◈ سیدنا علی بن ابی طالب [سنن الترمذي: 3423 وقال: هذا حديث حسن صحيح وصححه ابن خزيمه: 584 وسنده حسن]
◈ سیدنا ابوموسٰی الاشعری [سنن الدارقطني 292/1 ح 1111، وسنده صحيح]
◈ سیدنا جابر بن عبد الله الانصاری [مسند السراج ص25 ح 92 وسنده حسن] اور دیگر نو (9) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے جیسا کہ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین متواتر ہے۔
◄ تواتر رفع یدین کی مز ید تحقیق کے لئے دیکھئے [قطف الازهار المتناثره ح 33، لقط الآلي المتناثرة ح 62،نظم المتناثر ح 67، فتح الباري 203/1، اور التنقيد والايضاح للعراقي ص 270] وغیره۔
➋ درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رفع یدین (قبل الرکوع و بعده) ثا بت ہے:
◈ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما [صحيح بخاري: 739، و جزء رفع اليدين للبخاري: 80 وسنده صحيح و صححه ابوداود: 741]
◈ سیدنا مالک بن الحویرث [صحيح بخاري: 737 و صحيح مسلم: 391]
◈ سیدنا ابوموسٰی الاشعری [سنن الدارقطني 292/1 ح 1111، وسنده صحيح]
◈ سیدنا ابوبکر الصديق [السنن الكبري للبيهقي 73/2 وسنده صحيح]
◈ سیدنا عبد الله بن الزبیر [السنن الكبري للبيهقي 73/2 وسنده صحيح]
◈ سیدنا ابن عباس [مصنف ابن ابي شيبه 235/1 وسنده صحيح]
◈ سیدنا انس بن مالک [جزء رفع اليدين: 20 وسنده صحيح]
◈ سیدنا جابر بن عبدالله انصاری [مسند السراج: 92 رسند حسن]
◈ سیدنا ابوہریرہ [جزء رفع اليدين: 22 وسنده صحيح]
● جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول الله سلم کے صحابہ کرام شروع نماز میں اور رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [السنن الكبري للبيهقي 75/2 وسنده صحيح]
◄ ثابت ہوا کہ صحابہ کرام سے رفع یدین کا ثبوت متواتر ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➌ درج ذیل تابعین کرام سے رفع یدین ثابت ہے:
◈ محمد بن سیرین [مصنف ابن ابي شيبه 235/1ح 2436 وسندہ صحيح]
◈ ابوقلابہ البصری [مصنف ابن ابي شيبه 235/1ح 2437 وسندہ صحيح]
◈ وہب بن منبہ [التمهيد 228/9 ومصنف عبدالرزاق: 2524 وهو صحيح]
◈ سالم بن عبداللہ المدنی [جزء رفع اليدين:62 وسنده حسن]
◈ قاسم بن محمد المدني [جزء رفع اليدين: 62 وسنده حسن]
◈ عطاء بن ابی رباح [جزء رفع اليدين: 62 وسنده حسن]
◈ مکحول الشامی [جزء رفع اليدين: 62 وسنده حسن]
◈ نعمان بن ابی عیاش [جزء رفع اليدين: 59 وسنده حسن]
◈ طاؤس [السنن الكبري للبيهقي 74/2 وسنده صحيح]
◈ سعید بن جبیر [السنن الكبري للبيهقي 75/2 وسنده صحيح]
◈ حسن البصری [مصنف ابن ابي شيبه 235/1ح 2435 وسندہ صحيح] وغیرہم
◄ ثابت ہوا کہ تابعین سے رفع یدین کا ثبوت متواتر ہے۔ رحمہم اللہ اجمعین
➍ درج ذیل ائمہ کرام سے رفع یدین قولاً و فعلاً ثابت ہے:
◈ مالک بن انس، صاحب الموطأ [سنن الترمذي: 255 وهو صحيح]
◈ شافعی [كتاب الام 104/1]
◈ أحمد بن حنبل [مسائل احد لابي داود ص 23]
◈ اسحاق بن راہویہ [جزء رفع اليدين: معرفة سنن والآثار للبيهقي، قلمي ج 1ص 225]
◈ ابن المبارک [تاويل مختلف الحديث لابن قتيبه ص 66 وسنده صحيح]
◈ یحیی بن معین [جزء رفع اليدين: 121] اور
◈ حمیدی [جزء رفع اليدين: 1] و غیرہم رحمہم الله اجمعین
➎ ان دلائل مذکورہ سے ثابت ہوا کہ رفع یدین کومنسوخ یا متروک یا غیر اولٰی کہنا باطل ہے۔
➏ امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله کا عام اعلان ہے کہ کسی صحابی سے بھی رفع یدین کا نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے: [جزء رفع اليدين ح 76، 40، المجموع شرح المهذب للنووي 405/3]
➐ اس موضوع پر تفصیلی تحقیق کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ کی مشہور و ثابت کتاب جز رفع الیدین (بتحقیقی) اور راقم الحروف کی کتاب نور العینین فی اثبات مسئلہ رفع الیدین کا مطالعہ کریں۔
➑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک رفع یدین ثابت نہیں ہے۔
➑ رفع یدین کرنے والے کو ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے یا ایک رفع یدین پر دس (10) نیکیاں ملتی ہیں۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبراني 297/17 وسنده حسن ومسند الهيثمي فى مجمع الزوائد 103/2، و معرفة السنن والآثار للبيهقي قلمي 225/1 عن اسحاق بن راهويه وسنده صحيح]
تنبیہ:
شیخ ابوالحسن القابسی نے جس تیسری روایت کی طرف اشارہ کر کے اسے معلول قرار دیا ہے وہ غالباً صحيح بخاری (24) و صحيح مسلم (36) کی وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے: «دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ» یہ حدیث [موطأ امام مالك رواية يحييٰ 905/2 ح 1744] میں موجود ہے اور قول راجح میں میں صحیح و غیر معلول ہے۔ والحمد للہ
➓ سجدوں میں رفع الیدین کرنا کسی صحيح حدیث ثابت نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [نور العينين ص 189]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 59   

  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 735  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]
فقہ الحدیث
راوی حدیث کا عمل:
◈ سلیمان الشیبانی کہتے ہیں:
«رأيت سالم بن عبد الله اذا افتتح الصّلاة رفع يديه، فلمّا ركع رفع يديه، فلمّا رفع رأسه رفع يديه، فسألته، فقال: رأيت أبى يفعله، فقال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله .»
میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر تابعی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ [حديث السراج: 34/2- 35، ح: 115، وسندۂ صحيح]
↰ سبحان اللہ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا وفات رفع الیدین کرتے رہے، راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا، خود بھی رفع الیدین کیا، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کر رہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کر رہے ہیں، اگر رفع الیدین منسوخ ہو گیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوی حدیث صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہو گیا؟

⟐ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں:
جو سنت کی محبت سے بلاشر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے، اس کو برا نہیں جا نتا۔‏‏‏‏ [تذكرة الرشيد: 175/2]

اے اللہ! اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں!
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 11، حدیث/صفحہ نمبر: 8   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 721  
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے (تو بھی اسی طرح کرتے)، اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد بھی۔ سفیان نے (اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد بھی کے بجائے) ایک مرتبہ یوں نقل کیا: اور جب آپ اپنا سر اٹھاتے، اور زیادہ تر سفیان نے: رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد کے الفاظ ہی کی روایت کی ہے، اور آپ دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 721]
721۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ خلافیات بیہقی میں ہے: «فما زالت تلك صلوته حتي لقي الله» آخر وقت تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز رہی۔
امام ابن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ «زهري عن سالم عن ابيه» کی سند سے یہ حدیث میرے نزدیک مخلوق پر حجت اور دلیل ہے۔ جو بھی اسے سنے لازم ہے کہ اس پر عمل کرے کیونکہ اس کی سند میں کوئی نقص و عیب نہیں ہے۔ [التلخيص الحبير: 1؍218]
➋ اس حدیث میں تکبیر تحریمہ، رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد تین مواقع پر رفع الیدین مذکورہ ہے۔ چوتھا موقع دوسری رکعت سے اٹھنے کے بعد کا بھی ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري، حديث: 739]
➌ اس حدیث میں تصریح ہے کہ سجدوں میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: «ولا يفعل ذلك فى السجود» اور آپ سجدوں میں یہ نہ کیا کرتے تھے۔
➍ اختلاف الفاظ «بعد ما يرفع رأسه من الركوع» اور «واذا رفع راسه» دونوں کا حاصل قریب قریب ہے یعنی رکوع سے سر اٹھا لینے کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے یا رکوع سے اٹھتے ہوئے ساتھ ہی اپنے ہاتھ بھی اٹھا لیتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 721   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 722  
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، یہاں تک کہ وہ آپ کے دونوں کندھوں کے مقابل ہو جاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم «الله أكبر» کہتے، اور وہ دونوں ہاتھ اسی طرح ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھانے کا ارادہ کرتے تو بھی ان دونوں کو اٹھاتے (رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ وہ آپ کے کندھوں کے بالمقابل ہو جاتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم «سمع الله لمن حمده» کہتے، اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ نہ اٹھاتے، اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 722]
722۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث کے الفاظ (رکوع سے پہلے ہر تکبیر) میں یہ اشارہ ہے کہ قبل از رکوع کی تکبیرات مثلاً عیدین یا جنازہ میں رفع الیدین کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 722   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 741  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ جب نماز میں داخل ہوتے تو «الله اكبر» کہتے، اور جب رکوع کرتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دونوں رکعتوں سے اٹھتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح یہی ہے کہ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے، مرفوع نہیں ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بقیہ نے اس حدیث کا ابتدائی حصہ عبیداللہ سے روایت کیا ہے، اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور ثقفی نے بھی اسے عبیداللہ سے روایت کیا ہے مگر ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف ٹھہرایا ہے، اس میں یوں ہے: جب آپ دونوں رکعت پوری کر کے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ دونوں چھاتیوں تک اٹھاتے، اور یہی صحیح ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے لیث بن سعد، مالک، ایوب اور ابن جریج نے موقوفاً روایت کیا ہے، صرف حماد بن سلمہ نے اسے ایوب کے واسطے سے مرفوعاً روایت کیا ہے، ایوب اور مالک نے اپنی روایت میں دونوں سجدوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے، البتہ لیث نے اپنی روایت میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن جریج نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا ہے کہ میں نے نافع سے پوچھا: کیا ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلی بار میں ہاتھ زیادہ اونچا اٹھاتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ ہر مرتبہ برابر اٹھاتے تھے۔ میں نے کہا: اشارہ کر کے مجھے بتاؤ تو انہوں نے دونوں چھاتیوں تک یا اس سے بھی نیچے تک اشارہ کیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 741]
741۔ اردو حاشیہ:
اصل مسئلہ رفع الیدین کا ہے، اور اس میں قدرے تنوّع آ جاتا ہے۔ ہتھیلیاں چھاتیوں کے برابر ہوں تو انگلیوں کے سرے کندھوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہتھیلیاں اگر کندھوں کے برابر ہوں تو انگلیاں کانوں کی لوؤں تک پہنچ جاتی ہیں اور اس سے ذرا اونچے بھی ہو سکتے ہیں اور ان سب صورتوں میں توسّع ہے، تاہم اولٰی اور افضل یہی ہے کہ ہتھیلیاں کندھوں کے برابر آ جائیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 741   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 743  
´جنہوں نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر کیا ہے ان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتیں پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، تو «الله اكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 743]
743۔ اردو حاشیہ:
یہ رفع الیدین تیسری رکعت میں کھڑے ہو کر کرنا ہے۔ نیز دیکھیے درج ذیل حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 743   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 877  
´نماز شروع کرنے کے طریقہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں تکبیر تحریمہ شروع کرتے تو جس وقت اللہ اکبر کہتے اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھاتے کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل کر لیتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے تو بھی اسی طرح کرتے، پھر جب «سمع اللہ لمن حمده» کہتے تو بھی اسی طرح کرتے ۱؎، اور «ربنا ولك الحمد» کہتے اور سجدہ میں جاتے وقت اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ایسا نہیں کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 877]
877 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کا افتتاح اللہ اکبر سے ہو گا۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں کیونکہ اس تکبیر سے نماز میں بہت سی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں، مثلاً: کھانا پینا، چلنا پھرنا اور بات چیت کرنا وغیرہ۔ اللہ اکبر کے سوا کسی اور لفظ سے، خواہ وہ اس سے ملتا جلتا ہی ہو، نماز کا افتتاح درست نہیں۔
➋ کندھوں یا کانوں تک دونوں ہاتھ اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔ اور یہ نماز میں چار جگہ ثابت ہے: ٭تکبیرتحریمہ کے وقت۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جو اس رفع الیدین کو چھوڑتا ہے، وہ گناہ گار ہو گا۔ ٭رکوع سے پہلے۔ ٭رکوع کے بعد۔ ٭اور تیسری رکعت سے پہلے۔ مذکورہ صورتوں میں رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور یہ ایسی سنت ہے جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے کہ کوئی اور عمل صحابہ کی اتنی کثیر تعداد نے بیان نہیں کیا، یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اصحاب رسول میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ وہ نماز میں رفع الیدین نہ کرتا ہو۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نے نماز شروع کی تواللہ اکبر کہا: اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر چادر اوڑھ لی، پھر دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا: اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع کرنے لگے تو کپڑوں سے ہاتھ باہر نکالے، اللہ اکبر کہا: اور رفع الیدین کیا، پھر رکوع میں چلے گئے۔ جب رکوع سے اٹھے تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا: اور رفع الیدین کیا۔ [صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 401]
حضرت وائل بن حجر 9 اور 10ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور 11ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین کرتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رکوع کو جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کی ابتدا میں رفع الیدین کرنا سنت ہے مگر احناف اسے منسوخ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے پاس نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جو کہ ضعیف ہے۔ اور پھر اس کے مقابلے میں رفع الیدین کرنے والی روایات بہت زیادہ اور بہت قوی ہیں جیسا کہ بعض انصاف پسند حنفی علماء نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، اس لیے عمل ان روایات پر ہو گا جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور سنداً قوی بھی، نہ کہ ایک آدھ روایت پر جو صحت و سند کے اعتبار سے قوی بھی نہیں ہے، لہٰذا ایک آدھ ضعیف روایت کو لے کر کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اس سنتی صحیحہ کو منسوخ کہنا بہت بڑی ناانصافی ہے جب کہ آخر میں اسلام لانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس رفع الیدین کوبیان کیا ہے، یعنی یہ سنت صحیحہ، متواترہ، غیرمنسوخہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [نیل الأوطار: 2؍198۔ 209]
➌ سجدے کو جاتے وقت یا سجدے سے اٹھتے وقت رفع الیدین قطعاً ثابت نہیں بلکہ اس کی صریح نفی آئی ہے، لہٰذا اس پر عمل درست نہیں۔ اگر کہیں ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے یا اس سے مراد رکوع کے بعد رفع الیدین ہے جو رکوع اور سجدے کے درمیان ہوتا ہے۔
➍ امام تسمیع و تحمید «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» دونوں کہے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 877   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 878  
´اللہ اکبر کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھاتے کہ وہ آپ کے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہو جاتے، پھر اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور «سمع اللہ لمن حمده‏» کہتے، اور سجدہ کرتے وقت ایسا نہیں کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 878]
878 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنے کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے یا پہلے یا کہ بعد میں۔ جمہور کے نزدیک رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے، موالک، شوافع اور حنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔ احناف کے نزدیک رفع الیدین پہلے کیا جائے اور تکبیر تحریمہ بعد میں کہی جائے کیونکہ ہاتوں کا اٹھانا معبودان باطلہ کی نفی کے قائم مقام ہے اور اللہ اکبر میں توحید کا اثبات ہے۔ اور عربی میں نفی پہلے ہوتی ہے اور اثبات بعد میں، جیسے لاالٰہ الا اللہ میں ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ تکبیر تحریمہ پہلے کہی جائے اور رفع الیدین بعد میں کیا جائے۔ حدیث کی رو سے تینوں طریقے درست ہیں، کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «رَأَيْتُ النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ في الصَّلاةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حتّى يَجْعَلَهُما حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ» میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز کا افتتاح تکبیر تحریمہ سے کرتے اور تکبیر کہتے وقت رفع الیدین کرتے یہاں تک کہ انہیں کندھوں کے برابر لے جاتے۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738]
نیز حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «انه رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يرفَعُ يديهِ مع التکبیر» انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے تھے۔ [سنن أبي داؤد، الصلاة حدیث: 752]
یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے ساتھ کیا جائے اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے کچھ الفاظ اس طرح ہیں: «إذا قام الصَّلاة رفعَ يديهِ حتی تکونا حَذْوَ مَنكِبَيْهِ ثم كَبَّرَ» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے، پھر تکبیر کہتے۔ [صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 390، 23]
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا جائے۔ اور صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت ہے، ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب آپ نماز شروع کرتے تواللہ اکبر کہتے، پھر رفع الیدین کرتے۔۔۔ اور پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ [صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 391]
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے بعد کیا جائے۔ غرض مذکورہ تین طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے اور گاہے گاہے ہر ایک پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ تمام کی حیثیت برابر ہے۔ کسی طریقے کو ترجیح دینا درست نہیں کیونکہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب متعدد روایات پر عمل مشکل ہو، جبکہ یہاں ایسے نہیں ہے بلکہ مختلف اوقات میں ہر ایک روایت پر عمل ممکن ہے، لہٰذا جمع اولیٰ ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حکمت کے بارے اہل علم کی مختلف آراء ہیں: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے لیے کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عجزوانکسار اور خود سپردگی کا اظہار ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی قیدی پکڑا جائے تو وہ خود سپردگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بندہ ہاتھ کھڑے کر کے اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے قول اور فعل میں موافقت ہو جاتی ہے کہ وہ تمام تر امور دنیا کو چھوڑ کراپنے رب سے مناجات کرنے کے لیے نماز کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 878   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 879  
´نماز دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کرتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ان دونوں کو اسی طرح اٹھاتے، اور «سمع اللہ لمن حمده‏»، «ربنا ولك الحمد‏» کہتے، اور سجدہ کرتے وقت ایسا نہیں کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 879]
879 ۔ اردو حاشیہ: اکثر روایات میں کندھوں کے برابر رفع الیدین کا ذکر ہے۔ بعض صحیح روایات میں کانوں کے برابر کا بھی ذکر ہے۔ [صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 391]
دونوں صورتیں جائز ہیں۔ بعض اہل علم، مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نے تطبیق دی ہے کہ ہاتھ اس طرح اٹھائے جائیں کہ انگلیوں کے کنارے کانوں کے برابر اور ہتھیلیوں کا نچلا کنارہ کندھوں کے برابر ہو۔ اس طرح دونوں روایات پر بیک وقت عمل ہو جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 879   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1145  
´دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین نہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے، اور جب رکوع کرتے تو بھی، اور رکوع کے بعد بھی، اور دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1145]
1145۔ اردو حاشیہ: یہ روایت صحیح ہے، اس لیے سجدے میں رفع الیدین کرنا صحیح نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1145   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1183  
´آخری دونوں رکعتوں کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز میں داخل ہوتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور دو رکعتوں کے بعد جب کھڑے ہوتے تو بھی اپنے ہاتھوں کو مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1183]
1183۔ اردو حاشیہ: رفع الیدین کندھوں تک بھی ہو سکتا ہے، کانوں کے کناروں تک بھی جیسا کہ پیچھے حدیث: 879 کے فائدے میں ذکر ہو چکا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1183   

  الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 741  
´رکوع کرتے وقت رفع یدین`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ جب نماز میں داخل ہوتے تو «الله اكبر» کہتے، اور جب رکوع کرتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دونوں رکعتوں سے اٹھتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے۔. . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة / باب افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ/ ح: 741]
فوائد و مسائل
کیا رفع الیدین بتوں کی وجہ سے کیا جاتا تھا؟
------------------
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین اس لیے کروایا تھا کہ لوگ بغلوں میں بت رکھ کر آتے تھے؟
جواب: کسی صحیح تو کجا ضعیف روایت میں بھی یہ بات موجود نہیں ہے، یہ لوگوں کی بنائی ہوئی بات ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ رفع الیدین نماز کے دوران کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت اور احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں، لوگوں نے اس عظیم سنت کو ترک کرنے کے جو حیلے تراش رکھے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 203   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث858  
´رکوع میں جاتے اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ ان دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے مقابل لے جاتے، اور جب رکوع میں جاتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، (تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے رفع یدین کرتے) اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ ہاتھ نہ اٹھاتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 858]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اُٹھانا (رفع الیدین کرنا)
بالاتفاق مسنون ہے۔

(2)
اس حدیث میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے۔
دوسری احادیث میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا مذکور ہے اس لئے دونوں طرح سنت ہے۔
کبھی کندھوں تک ہاتھ اُٹھا لینے چاہییں۔
کبھی کانوں تک۔

(3)
رکوع جاتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت بھی رفع الیدین مسنو ن ہے۔

(4)
حافظ زین الدین ابو الفضل عبد الرحیم عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب الأسانید میں فرمایا ہے۔
رفع الیدین کی حدیثیں پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں۔
جن میں حضرات عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔ (طرح التشریب، 254/2)
ان میں سے صحاح ستہ میں مندرجہ ذیل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے رکوع کو جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین کی احادیث مروی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر (صحاح ستہ)
۔
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحاح ستہ، سوائے ترمذی)
۔
حضرت وائل بن حجررضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحاح ستہ، سوائے ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
حضرت عمیر بن حبیب لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ)
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ، ابوداؤد، ترمذی)
حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ترمذی، ابوداؤد)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ، ابوداؤد)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ابن ماجہ)
حضرت جابر بن عبداللہ (ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوداؤد)
حضرت ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ترمذی)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اسمائے گرامی ذکر کیے ہیں۔
جن سے رفع الیدین کی احادیث مروی ہیں۔
ان میں سے اکثر کےنام مذکورہ بالا حضرات میں شامل ہیں۔
انھوں نے ان کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام بھی ذکر کیے ہیں۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، بہیقی رحمۃ اللہ علیہ، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ، اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی یہ مسئلہ روایت کیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 858   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 255  
´رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ) نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 255]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیرِ تحریمہ کے وقت،
رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اور بعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے،
صحابہ کرام اور تابعین عظام میں زیادہ تر لوگوں کا اسی پر عمل ہے،
خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے،
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخر میں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجر ہیں جو غزوہ تبوک کے بعد 9ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں،
اور یہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے تو وہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 255   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:626  
626-سالم بن عبداللہ اپنے والدکایہ بیان نقل کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا آغاز کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کندھوں تک دونوں ہاتھ بلند کیے۔پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جانے لگے اور رکوع سے سراٹھانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:626]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز کے شروع میں، رکوع میں جاتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے، اور اس کے متعلقہ بے شمار احادیث ہیں۔
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث کا خلاصہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع الیدین کرتے تھے، دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کی تائید فرمائی۔ [سنن ابي داود: 730 سنده صحيح]
بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے بھی یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق، علی بن ابی طالب، ابوہریرہ، ابوموسی اشعری، جابر بن عبداللہ انصاری اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث کتب متداولہ میں موجود ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 626   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 739  
739. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تواللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ جب رکوع کرتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور جب سمع الله لمن حمده کہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعت ادا کر کے کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ مذکورہ بیان کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس روایت کو حماد بن سلمہ، حضرت ایوب سے وہ حضرت نافع سے، وہ ابن عمر سے اور ابن عمر نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابن طہمان نے اس روایت کو مختصر طور پر ایوب اور موسیٰ بن عقبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:739]
حدیث حاشیہ:
تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر ساری امت کا اجماع ہے۔
مگر بعد کے مقامات پر ہاتھ اٹھانے میں اختلاف ہے۔
ائمہ کرام و علماءاسلام کی اکثریت حتی کہ اہل بیت سب باالاتفاق ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں، مگر حنفیہ کے ہاں مقامات مذکورہ میں رفع الیدین نہیں ہے کچھ علمائے احناف اسے منسوخ قرار دیتے ہیں، کچھ ترک رفع کو اولیٰ جانتے ہیں کچھ دل سے قائل ہیں مگر ظاہر میں عمل نہیں ہے۔
فریقین نے اس بارے میں کافی طبع آزمائی کی ہے۔
ہر دو جانب سے خاص طور پر آج کے دور پرفتن میں بہت سے کاغذ سیاہ کئے گئے ہیں۔
بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔
مگر بات ابھی تک جہاں تھی وہیں پر موجود ہے۔
ایک ایسے جزئی مسئلہ پر اس قدر تشدد بہت ہی افسوسناک ہے۔
کتنے عوام ہیں جو کہتے ہیں کہ شروع اسلام میں لوگ بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے، اس لیے رفع یدین کا حکم ہوا تاکہ ان کے بغلوں کے بت گرجایا کریں۔
أستغفرا اللہ! یہ ایسا جھوٹ ہے جو شایدا سلام کی تاریخ میں اس کے نام پر سب سے بڑا جھوٹ کہا جاسکتا ہے۔
کچھ لوگ اس سنت نبوی کو مکھی اڑانے سے تشبیہ دے کر توہین سنت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
کاش! علماءاحناف غور کرتے اور امت کے سوادا عظم کو دیکھ کر جواس کے سنت ہونے کے قائل ہیں کم از کم خاموشی اختیار کر لیتے تو یہ فساد یہاں تک نہ بڑھتا۔
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی تفصیلات کے بعد فیصلہ دیا ہے۔
''و الذي یرفع أحب إلی ممن لا یرفع'' یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ پیا را ہے۔
اس لیے کہ احادیث رفع بکثرت ہیں اور صحیح ہیں جن کی بنا پر انکار کی گنجائش نہیں ہے۔
محض بدگمانیوں کے دور کرنے کے لیے کچھ تفصیلات ذیل میں دی جاتی ہیں۔
امید ہے کہ ناظرین کرام تعصب سے ہٹ کر ان کا مطالعہ کریں گے اور طاقت سے بھی زیادہ سنت رسول کا احترام مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں میں باہمی اتفاق کے لیے کوشاں ہوں گے کہ وقت کا یہی فوری تقاضا ہے۔
حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
۔
''معناہ تظیم للہ و اتباع لسنة النبي صلی اللہ علیه وسلم'' کہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھانے پر رفع یدین کرنے سے ایک تو اللہ کی تعظیم اور دوسرے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع مراد ہے۔
(نووي، ص: 168 وغیرہ)
اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین من زینة الصلوة کہ یہ رفع یدین نماز کی زینت ہے۔
(عیني، جلد: 3، ص: 7 وغیرہ)
اور حضرت نعمان بن ابی عیاش ؒ فرماتے ہیں۔
لکل شیئ زینة و زینة الصلوٰة أن ترفع یدیك إذا کبرت و إذا رکعت و إذا رفعت راسك من الرکوع'' کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا ہے۔
(جزءبخاري، ص: 21)
اور امام ابن سیرین ؒ فرماتے ہیں:
هو من تمام الصلوٰة۔
کہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔
(جزءبخاري، ص: 17)
اور عبدالملک فرماتے ہیں:
سألت سعید بن جبیر عن رفع الیدین في الصلوٰة فقال هو شیئ تزین به صلوتك (بیهقي، جلد: 2 ص: 75)
کہ میں نے سعید بن جبیر سے نماز میں رفع یدین کرنے کی نسبت پوچھا، تو انہوں نے کہا یہ وہ چیز ہے کہ تیری نماز کو مزین کردیتی ہے۔
اورحضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں۔
من رفع یدیه في الصلوٰة له بکل إشارة عشر حسنات۔
کہ نماز میں ایک دفعہ رفع یدین کرنے سے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔
(فتاوی إمام ابن تیمیة، ص: 376)
گویا دو رکعت میں پچاس اور چار رکعت میں سو نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
مرویات بخاری کے علاوہ مندرجہ ذیل روایات صحیحہ سے بھی رفع الیدین کا سنت ہونا ثابت ہے۔
عن أبي بکر الصدیق قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فکان برفع یدیه إذا افتتح الصلوٰة و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔
آپ ہمیشہ شروع نماز میں اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(بیهقي، جلد: 2 ص: 73)
امام بیہقق، امام سبکی ؒ، امام ابن حجر ؒ فرماتے ہیں۔
رجاله ثقات کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔
(بیهقي، جلد: 2 ص: 73، تلخیص، ص: 82، سبکي، ص: 6)
و قال الحاکم إنه محفوظ حاکمؒ نے کہا یہ حدیث محفوظ ہے۔
(تلخیص الحبیر، ص: 82)
عن عمر بن الخطاب أنه قال رأیت رسول اللہ ﷺ يرفع یدیه إذا کبر و إذا رفع رأسه من الرکوع۔
(رواہ الدار قطني جزءسبکي:
ص6)

و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔
آپ ہمیشہ رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(جزء بخاري، ص: 13)
امام بیہقی ؒ اور حاکم ؒ فرماتے ہیں۔
فقد روی هذہ السنة عن أبی بکر و عمر و عثمان و علی رضي اللہ عنهم کہ رفع یدین کی حدیث جس طرح حضرت ابوبکر و عمر فاروق ؓ نے بیان کی ہے۔
اسی طرح حضرت عثمان ؓ سے بھی مروی ہے۔
(تعلیق المغني، ص: 111)
نیز حضرت علی کرم اللہ وجهه سے بھی یہی مروی ہے۔
علامہ سبکی ؒ فرماتے ہیں۔
الذین نقل عنهم روایة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أبوبکر و عمر و عثمان و علي وغیرهم رضي اللہ عنهم کہ جن صحابہ نے رسول خدا ﷺ سے رفع یدین کی روایت نقل کی ہے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی انہیں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔
(جزءسبکي، ص: 9)
و عن علي بن أبي طالب أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه إذا کبر للصلوٰة حذو منکبیه و إذا أراد أن یرکع و إذا رفع رأسه من الرکوع و إذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلك (جزء بخاري، ص: 6)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول خدا ﷺ ہمیشہ تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
(أبو داود، جلد: 1ص: 198، مسند أحمد، جلد: 3 ص: 165، ابن ماجة، ص: 62 وغیرہ)
عن ابن عمر ؓ أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه حذو منکبیه إذا افتتح الصلوة و إذا کبر للرکوع و إذا رفع رأسه من الرکوع رفعهما کذلك۔
حضرت عبداللہ بن عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ تحقیق کہ رسول خدا ﷺ جب نماز شروع کرتے تو ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔
پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
(مسلم، ص: 168، أبوداود جلد: 1 ص: 192، ترمذي، ص: 36، وغیرہ، ان کے علاوہ اکیس کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔
)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ عاشق سنت نے کان یرفع یدیه فرما کر اور موجب روایت بیہقی آخر میں حتی لقي اللہ لاکر یہ ثابت کردیا کہ رسول خدا ﷺ ابتدائے نبوت سے لے کر اپنی عمر شریف کی آخری نماز تک رفع یدین کرتے رہے۔
حدیث ابن عمر ؓ کان یرفع یدیه الخ کے تحت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا دليل صريح على أن رفع اليدين في هذه المواضع سنة، وهو الحق والصواب، ونقل البخاري في صحيحه عقب ابن عمر هذا عن شيخه على بن المديني أنه قال:
حق على المسلمين أن يرفعوا أيديهم عند الركوع والرفع منه؛ لحديث ابن عمر هذا. وهذا في رواية ابن العساكر وقد ذكره البخاري في جزء رفع اليدين، وزاد:
"وكان أعلم أهل زمانه"-انتهى. قلت:
وإليه ذهب عامة أهل العلم من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - والتابعين وغيرهم. قال محمد بن نصر المروزي:
أجمع علماء الأمصار على مشروعية ذلك إلا أهل الكوفة. وقال البخاري في جزء رفع اليدين:
قال الحسن وحميد بن هلال:
كان أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يرفعون أيديهم في الصلاة. وروى ابن عبد البر بسنده عن الحسن البصري، قال:
كان أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يرفعون أيديهم في الصلاة إذا ركعوا وإذا رفعوا كأنها المراوح. وروى البخاري عن حميد بن هلال، قال:
كان أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كأنما أيديهم المراوح، يرفعونها إذا ركعوا وإذا رفعوا رؤوسهم. قال البخاري:
ولم يستثن الحسن أحداً منهم من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - دون أحد، ولم يثبت عند أهل العلم عن أحد من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه لم يرفع يديه. ثم ذكر البخاري عن عدة من علماء أهل مكة، وأهل الحجاز وأهل العراق والشام والبصرة واليمن وعدة من أهل الخرسان، وعامة أصحاب ابن المبارك ومحدثي أهل بخارى، وغيرهم ممن لا يحصى أنهم كانوا يرفعون أيدهم عند الركوع والرفع منه، لا اختلاف بينهم في ذلك الخ (مرعاة ج: 1 ص 529)
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ یہ حدیث اس امر پر صریح دلیل ہے کہ ان مقامات پر رفع الیدین سنت ہے۔
اور یہی حق اور صواب ہے اورامام بخاری ؒ نے اپنے استاد علی بن المدینی ؒ سے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو (کاندھوں تک یا کانوں کی لو تک)
اٹھائیں۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ سے عام اہل علم کا یہی مسلک ہے اورمحمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ سوائے اہل کوفہ کے تمام علمائے امصار نے اس کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے۔
جملہ اصحاب رسول اللہ ﷺ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
امام حسن بصری ؒ نے اصحاب نبوی میں اس بارے میں کسی کا استثناءنہیں کیا۔
پھر بہت سے اہل مکہ واہل حجاز و اہل عراق و اہل شام اور بصرہ اور یمن اور بہت سے اہل خراسان اور جمیع شاگردان عبداللہ بن مبارک اور جملہ محدثین بخارا وغیرہ جن کی تعداد شمار میں بھی نہیں آسکتی، ان سب کا یہی عمل نقل کیا ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
مندرجہ ذیل احادیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔
عن أنس أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه إذا دخل في الصلوٰة و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع۔
(رواہ ابن ماجة)
۔
حضرت انس ؓ (جو دس سال دن رات آپ ﷺ کی خدمت میں رہے)
فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ جب بھی نماز میں داخل ہوتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔
و سندہ صحیح۔
سبکی نے کہا سند اس کی صحیح ہے۔
(ابن ماجة، ص: 62، بیهقي، جلد: 2 ص74، دار قطني، ص: 108، جزءبخاري، ص: 9، تلخیص، ص: 82، جزءسبکي، ص: 4)
حضرت انس ؓ نے کان یرفع فرما کر واضح کر دیا کہ حضور ﷺ نے دس سال میں ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی، جس میں رفع یدین نہ کیا۔
(تخریج زیلعي، جلد: 1ص: 24، مجمع الزوائد، ص: 182، التعلیق المغني، ص: 110)
عن ابن عباس عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه (جزء بخاري، ص: 13)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(ابن ماجة، ص: 62)
ابن عباس ؓ نے کان یرفع فرمایا جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔
عن أبي الزبیر أن جابر بن عبداللہ کان إذا افتتح الصلوٰة رفع یدیه و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع فعل مثل ذلك و یقول رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فعل ذلك۔
(رواہ ابن ماجة، ص: 62)
و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه۔
(جزء بخاري، ص: 12)
اس حدیث میں کان یرفع موجود ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔
عن أبي موسی قال هل أریکم صلوٰة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فکبر و رفع یدیه ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ و رفع یدیه ثم قال هذا فاصنعوا (رواہ الدارمي، جزءرفع الیدین، سبکي، ص: 5)
و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع وإذا رفع رأسه۔
حضرت ابوموسی ؓ نے مجمع عام میں کہا۔
آؤ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں۔
پھر اللہ أکبر کہہ کر نماز شروع کی۔
جب رکوع کے لیے تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر جب انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا۔
لوگو! تم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرو۔
کیوں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ رکوع میں جانے سے پہلے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(دارمي، دار قطني، ص: 109، تلخیص الحبیر ص: 81، جزء بخاري، ص: 13، بیهقي، ص: 74)
اس حدیث میں بھی کان یرفع موجود ہے جو دوام کے لیے ہے۔
مولانا انور شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں۔
هي صحیحة یہ حدیث صحیح ہے۔
(العرف الشذي، ص: 125)
عن أبي هریرة أنه قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا کبر للصلوٰة جعل یدیه حذو منکبیه و إذا رکع فعل مثل ذلك و إذا رفع للسجود فعل مثل ذلك و إذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلك۔
(رواہ أبوداود)
و عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عند الرکوع و إذا رفع رأسه۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی نماز کے لیے اللہ أکبر کہتے ہیں تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہمیشہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
اس میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے۔
(أبوداود، جلد: 1 ص: 197، بیهقي، جلد: 2 ص: 74، و رجاله رجال صحیح، تلخیص، ص: 82، و تخریج زیلعي، جلد: 1 ص: 315)
عن عبید بن عمیرعن أبیه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه عندالرکوع وإذا رفع رأسه۔
(جزء بخاري، ص: 3)
حضرت عبید بن عمیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ ہمیشہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
اس حدیث میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے جو دوام پر دلالت کرتاہے۔
عن البراء بن عازب قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا افتتح الصلوة رفع یدیه و إذا أرار أن یرکع و إذا رفع رأسه من الرکوع۔
(رواہ الحاکم و البیهقي)
براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ حضور ﷺ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(حاکم، بیهقي، جلد: 2 ص: 77)
عن قتادة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان یرفع یدیه إذا رکع و إذا رفع رواہ عبدالرزاق في جامعه۔
(سبکي، ص: 8)
قال الترمذي و في الباب عن قتادة۔
حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(ترمذي:
ص36)

عن أبي حمید قال في عشرة من أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم أنا أعلمکم بصلوٰة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قالوا فاذکر قال کان النبي صلی اللہ علیه وسلم إذا قام إلی الصلوة رفع یدیه و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع رفع یدیه۔
حضرت ابوحمید نے دس صحابہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں رسول خدا ﷺ کی نماز سے اچھی طرح واقف ہوں، انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ، ابوحمید نے کہا۔
جب رسول خدا ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔
اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔
یہ بات سن کر تمام صحابہ نے کہا صدقت هکذا کان یصلي بے شک تو سچا ہے، رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(جزء سبکي، ص: 4)
اس حدیث میں کان یصلي قابل غور ہے جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔
(جزء بخاري، ص: 8، أبوداود، ص: 194)
عن عبداللہ بن الزبیر أنه صلی بهم یشیر بکفیه حین یقوم و حین یرکع و حین یسجد و حین ینهض فقال ابن عباس من أحب أن ینظر إلی صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فلیقتد بابن الزبیر۔
حضرت عبداللہ بن زبیر نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہونے کے وقت اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔
پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا، لوگو! جو شخص رسول اللہ ﷺ کی نماز پسند کرتاہو اس کو چاہئے کہ عبداللہ بن زبیر کی نماز پڑھے کیوں کہ یہ بالکل رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔
(أبوداود، ص: 198)
عن الحسن أن النبي صلی اللہ علیه وسلم کان إذا أراد أن یکبر رفع یدیه و إذا رفع رأسه من الرکوع رفع یدیه (رواہ أبونعیم، جزء سبکي، ص: 8)
حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ رکوع کرنے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(رواہ عبدالرزاق، تلخیص الحبیر، ص: 82)
صحابہ کرام بھی رفع یدین کیا کرتے تھے، جیسا کہ تفصیلات ذیل سے ظاہر ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ رفع یدین کیا کرتے تھے:
عن عبداللہ بن الزبیر قال صلیت خلف أبي بکر فکان یرفع یدیه إذا افتتح الصلوة و إذا رکع و إذا رفع رأسه من الرکوع و قال صلیت خلف رسول اللہ ﷺ فذکر مثله۔
(رواہ البیهقي و رجاله ثقات، جلد: 2 ص: 73)
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے صدیق اکبر ؓ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سراٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اب ہی نہیں بلکہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بھی آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر اسی طرح ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔
(تلخیص، ص: 82، سبکي، ص: 6)
اس حدیث میں بھی صیغہ استمرار (کان یرفع)
موجود ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔
وعن عمر نحوہ رواہ الدار قطني في غرائب مالك و البیهقي و قال الحاکم إنه محفوظ (تلخیص الحبیر لابن حجر، ص: 82)
حضرت صدیق اکبر ؓ کی طرح حضرت عمر فاروق ؓ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔
عبدالمالک بن قاسم فرماتے ہیں بینما یصلون في مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم إذا خرج فیهم عمر فقال اقبلوا علی بوجوهکم أصلي بکم صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم التي یصلي ویأمر بها فقام و رفع یدیه حتی حاذی بھما منکبیه ثم کبر ثم رفع و رکع و کذلك حین رفع کہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔
حضرت عمرؓ آئے اور فرمایا، میری طرف توجہ کرو میں تم کو رسول اللہ ﷺ کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح حضور ﷺ پڑھا کرتے تھے اور جس طرح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھرحضرت عمر ؓ قبلہ رو کھڑے ہوگئے اورتکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔
فقال القوم هکذا رسول اللہ ﷺ یصلي بنا پھر سب صحابہ نے کہا بے شک حضور ﷺ ایسا ہی کرتے۔
(أخرجه البیهقي في الخلافیات، تخرییج زیلعي و قال الشیخ تقي الدین رجال إسنادہ معرفون) (تحقیق الراسخ، ص: 38)
حضرت عمر فاروق، حضرت علی ؓ و دیگر پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم امام بخاری فرماتے ہیں:
(1)
عمر بن خطاب (2)
علي بن أبي طالب (3)
عبداللہ بن عباس (4)
أبوقتادة (5)
أبوأسید (6)
محمد بن مسلمة (7)
سهل بن سعد (8)
عبداللہ بن عمر (9)
أنس بن مالك (10)
أبوهریرة (11)
عبداللہ بن عمرو (12)
عبداللہ بن زبیر (13)
وائل بن حجر (14)
أبوموسی (15)
مالك بن حویرث (16)
أبوحمید ساعدي (17)
أم درداءأنهم کانوا یرفعون عند الرکوع (جزء بخاري، ص: 6)
کہ یہ سب کے سب رکوع جانے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
طاؤس و عطاءبن رباح کی شہادت:
عطاءبن رباح فرماتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم کو دیکھا یرفعون أیدیهم إذا افتتحوا الصلوٰة و إذا رکعوا کہ یہ شروع نماز اور عند الرکوع رفع یدین کرتے تھے۔
(جزء بخاری، ص: 11)
حضرت طاؤس کہتے ہیں رأیت عبداللہ و عبداللہ و عبداللہ یرفعون أیدیهم کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن زبیر ؓ کودیکھا، یہ تینوں نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(جزء بخاري، ص: 13)
حضرت انس بن مالک ؓ:
عن عاصم قال رأیت أنس بن مالك إذا افتتح الصلوة کبر و رفع یدیه و يرفع کلما رکع و رفع رأسه من الرکوع۔
عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(جزء بخاري، ص: 12)
حضرت ابوہریرہ ؓ:
أنه کان إذا کبر رفع یدیه و إذا رفع رأسه من الرکوع، عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جب تکبیر تحریمہ کہتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔
(جزء بخاري، ص: 11)
حضرت ام درداء ؓ:
سلیمان بن عمیر فرماتے ہیں:
رأیت أم درداء ترفع یدیها في الصلوة حذو منکبیها حین تفتتح الصلوة و حین ترکع فإذا قالت سمع اللہ لم حمدہ رفعت یدها۔
کہ میں نے ام درداء ؓ کو دیکھا وہ شروع نماز میں اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھی اور جب رکوع کرتی اور رکوع سے سر اٹھاتی اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتی تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا کرتی تھی۔
(جزءرفع الیدین، إمام بخاري، ص: 12)
ناظرین کرام کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ حضرت امام بخاری ؒ نے رفع یدین کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا جو فعل نقل کیا ہے از روئے دلائل وہ کس قدر صحیح ہے۔
جو حضرات رفع یدین کا انکار کرتے اور اسے منسوخ قرار دیتے ہیں وہ بھی غور کریں گے تو اپنے خیال کو ضرور واپس لیں گے۔
چونکہ منکرین رفع یدین کے پاس بھی کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔
اس لیے ایک ہلکی سی نظر ان پر بھی ڈالنی ضروری ہے تاکہ ناظرین کرام کے سامنے تصویر کے ہر دو رخ آجائیں اور وہ خود امر حق کے لیے اپنے خداداد عقل و بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرسکیں۔
منکرین رفع یدین کے دلائل اور ان کے جوابات:
(1)
جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا:
مالي أراکم رافعي أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلوة (صحیح مسلم، باب الأمر بالسکون في الصلوة والنهي عن الإشارة بالید ورفعهما عند السلام)
یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، نماز میں حرکت نہ کیا کرو۔
منکرین رفع یدین کی یہ پہلی دلیل ہے جو اس لیے صحیح نہیں کہ (1)
اول تو منکرین کو امام نووی ؒ نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا کہ یہ حدیث تشہد کے متعلق ہے جب کہ کچھ لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا۔
بھلا اس کو رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین سے کیا تعلق ہے؟ مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث موجود ہے۔
(ب)
جابر بن سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم نے السلام علیکم کہا و أشار بیدہ إلی الجانبین اور ہاتھ سے دونوں طرف اشارہ کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا ماشأنکم تشیرون بأیدکم کأنها أذناب خیل شمس تمہارا کیا حال ہے کہ تم شریف گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے ہو۔
تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ رانوں پر رکھو۔
ویسلم علی أخیه من علی یمینه و شماله۔
اوراپنے بھائی پر دائیں بائیں سلام کہو۔
إذا سلم أحدکم فلیلتفت إلی صاحبه و لا یؤمي۔
(یرمی)
بیدہ جب تشہد میں تم سلام کہنے لگو تو صرف منہ پھیر کر سلام کہا کرو، ہاتھ سے اشارہ مت کرو۔
(مسلم شریف) (ج)
تمام محدثین کا متفقہ بیان ہے کہ یہ دونوں حدیثیں دراصل ایک ہی ہیں۔
اختلاف الفاظ فقط تعداد روایات کی بنا پر ہے کوئی عقل مند اس ساری حدیث کو پڑھ کر اس کو رفع یدین عند الرکوع کے منع پر دلیل نہیں لاسکتا۔
جو لوگ اہل علم ہو کر ایسی دلیل پیش کرتے ہیں ان کے حق میں حضرت امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
من احتج بحدیث جابر بن سمرة علی منع الرفع عند الرکوع فلیس له حظ من العلم۔
کہ جو شخص جابر بن سمرہ ؓ کی حدیث سے رفع یدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے وہ جاہل ہے اور علم حدیث سے ناواقف ہے۔
کیوں کہ اسکنوا في الصلوة فإنما کان في التشهد لا في القیام حضور ﷺ نے اسکنوا في الصلوٰة تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں (جزء رفع یدین، بخاري، ص: 16، تلخیص، ص: 83، تحفة، ص: 223)
اس تفصیل کے بعد ذرا سی بھی عقل رکھنے والا مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث کو رفع یدین کے منع پر پیش کرنا عقل اور انصاف اور دیانت کے کس قدر خلاف ہے۔
(2)
منکرین کی دوسری دلیل یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے نماز پڑھائی فلم یرفع إلا مرة۔
اور ایک ہی بار ہاتھ اٹھائے۔
(ابوداود، جلد1 ص: 199، ترمذی، ص: 36)
اس اثر کو بھی بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے۔
مگر فن حدیث کے بہت بڑے امام حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں و لیس هو بصحیح علی هذا اللفظ۔
یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔
اور ترمذی میں ہے:
یقول عبداللہ بن المبارک و لم یثبت حدیث ابن مسعود۔
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن مسعود کی صحت ہی ثابت نہیں۔
(ترمذي، ص: 36، تلخیص، ص: 83)
اور حضرت امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن آدم اور ابوحاتم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
(مسند احمد، جلد: 3ص: 16)
اور حضرت امام نووی ؒ نے کہا کہ اس کے ضغف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔
لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔
لہٰذا اسے دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
(3)
تیسری دلیل براءبن عازب کی حدیث کہ حضور ﷺ نے پہلی بار رفع یدین کیا۔
ثم لا یعود پھر نہیں کیا۔
اس حدیث کے بارے میں بھی حضرت امام ابوداؤد فرماتے ہیں:
هذا الحدیث لیس بصحیح۔
کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔
(أبوداود جلد: 1 ص: 200)
و قد رواہ ابن المدیني و أحمد و الدار قطني و ضعفه البخاري اس حدیث کو بخاری ؒ نے ضعیف اور علی بن مدینی، امام احمد اور دارقطنی نے مردو د کہا ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔
(تنویر، ص: 16) (4)
چوتھی دلیل عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار ہاتھ اٹھائے (طحاوي)
اس کے متعلق سرتاج علمائے احناف حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی فرماتے ہیں کہ یہ اثر مردود ہے۔
کیونکہ ا س کی سند میں ابن عیاش ہے جو متکلم فیه ہے۔
نیز یہی حضرت مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ؓ خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ عند الرکوع رفع یدین کیا کرتے تھے۔
فما زالت تلک صلوٰۃ حتی لقی اللہ تعالیٰ۔
یعنی ابتدائے نبوت سے اپنی عمر کی آخری نماز تک آپ رفع یدین کرتے رہے۔
وہ اس کے خلاف کس طرح کرسکتے تھے اور ان کا رفع یدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔
(تعلیق الممجد، ص: 193)
انصاف پسند علماءکا یہی شیوہ ہونا چاہئے کہ تعصب سے بلند و بالا ہو کر امر حق کا اعتراف کریں اوراس بارے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔
(5)
پانچویں دلیل۔
کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ پہلی بار ہی کرتے تھے۔
(دار قطني)
دار قطنی نے خود اسے ضعیف اور مردود کہا ہے اورامام ابن حجر ؒ نے فرمایا کہ اس حدیث کو ابن جوزی ؒ نے موضوعات میں لکھا ہے۔
لہٰذا قابل حجت نہیں۔
(تلخیص الحبیر، ص: 83)
ان کے علاوہ انس، ابوہریرہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کئے جاتے ہیں سب کے سب موضوع لغو اورباطل ہیں لا أصل لهم ان کا اصل و ثبوت نہیں (تلخیص الممجد، ص: 83)
آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔
آپ فرماتے ہیں:
۔
والذی یرفع أحب إلي ممن لا یرفع۔
یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے۔
کیوں کہ اس کے بارے میں دلیل بکثرت اور صحیح ہیں۔
(حجة اللہ البالغة، ج: 2 ص: 8)
اس بحث کو ذرا طول اس لیے دیا گیا کہ رفع یدین نہ کرنے والے بھائی کرنے والوں سے جھگڑا نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ کرنے والے سنت رسول کے عامل ہیں۔
حالات زمانہ کا تقاضا ہے کہ ایسے فروعی مسائل میں وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری اختیار کی جائے اور مسائل متفق علیه میں اتفاق کرکے اسلام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ پاک ہر کلمہ گو مسلمان کو ایسی ہی سمجھ عطا فرمائے۔
آمین!
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 739   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:735  
735. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتے۔ جب رکوع کے لیے اللہ أکبر کہتے، جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد (دونوں) کہتے لیکن سجدوں میں یہ عمل نہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:735]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔
اس رفع الیدین کے چار مواقع ہیں:
٭تکبیر تحریمہ کے وقت٭ رکوع میں جاتے ہوئے٭ رکوع سے اٹھتے وقت۔
٭تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت رفع الیدین کے پہلے موقع کو بیان کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ نماز شروع کرنے کے ساتھ ہی دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے، یعنی اللہ اکبر کہنے اور ہاتھوں کو اٹھانے میں مقارنت ہونی چاہیے، چنانچہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے جمہور اہل علم سے موافقت کی ہے کہ وہ مقارنت کے قائل ہیں جبکہ بعض اہل کوفہ کا موقف ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ أکبر کہے۔
اس اختلاف کی وجہ سے اس حکم کی علت اور سبب میں اختلاف ہے۔
جمہور اہل علم کے نزدیک رفع الیدین اور تکبیر کی علت یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بہرا دیکھ لے اور اندھا سن لے کہ نماز شروع ہورہی ہے۔
اگر نمازی بہرا ہے اور تکبیر تحریمہ نہیں سن سکتا تو ہاتھوں کو اٹھانے سے اسے نماز کے آغاز کا پتا چل جائے، اسی طرح اگر کوئی نابینا ہے اور وہ ہاتھوں کا اٹھنا نہیں دیکھ سکتا تو اسےاللہ أکبر کی آواز سن کر پتہ چل جائے کہ نماز کا آغاز ہو رہا ہے۔
اس علت کے پیش نظر جمہور اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اللہ أکبر اور ہاتھوں کا اٹھانا بیک وقت ہونا چاہیے۔
کچھ اہل کوفہ کے نزدیک اس کی علت نفی و اثبات ہے، یعنی ہاتھوں کو اٹھانے سے معبودانِ باطلہ کی نفی کرنا ہے اور اللہ أکبر کہنے سے معبود برحق کا اثبات کرنا ہے اور لاإله إلااللہ میں نفی، اثبات پر مقدم ہے، اس لیے جب قول میں نفی مقدم ہے تو فعل میں بھی اسے مقدم ہونا چاہیے۔
(2)
اب ہم دیکھتے ہیں روایات کس موقف کی تائید کرتی ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، نیز آگے امام زہری کے شاگرد شعیب سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اللہ أکبر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738)
اگرچہ صحیح مسلم کی بعض روایات کے الفاظ مذکورہ روایت سے مختلف ہیں:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ أکبر کہا اور ایک روایت میں ہے کہ پہلے اللہ أکبر کہا پھر دونوں ہاتھ اٹھائے، تاہم ترجیح اسی موقف کو ہے کہ اللہ أکبر کہنا اور ہاتھوں کا اٹھانا بیک وقت ہوجیسا کہ حضرت وائل بن حجر ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کے ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 725)
واضح رہے کہ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرنے پر تمام امت کا اتفاق ہے۔
(فتح الباري: 283/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 735   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:736  
736. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے اور اس طرح جب رکوع کے لیے اللہ أکبر کہتے، نیز جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ اور سجدوں میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:736]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہم نے مختصر صحیح بخاری کے ترجمے میں اس حدیث کے فوائد میں لکھا تھا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے۔
بقول امام شافعی ؒ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا اتباع ہے۔
(2)
تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر تمام امت کا اجماع ہے اور باقی مقامات ثلاثہ میں رفع الیدین کرنے پر بھی اہل کوفہ کے علاوہ تمام علمائے امت کا اتفاق ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ساری زندگی اس سنت پر عمل کیا اور یہ ایسی سنت متواترہ ہے جسے عشرۂ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی بیان کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں، لہٰذا مذکورہ حدیث کی بنا پر تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے، اس سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کےلیے اٹھتے وقت اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے رفع الیدین کریں۔
(3)
علاوہ ازیں حافظ ابن حجر ؒ نے رفع الیدین کی چند ایک حکمتیں بیان کی ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
٭دنیا کو چھوڑ کر کلی طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہوجانے کی علامت ہے۔
٭پوری طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کرنے کا اشارہ ہے تاکہ اللہ أکبر کہنے کے ساتھ مناسبت پید ا ہوجائے۔
٭نماز کی کمال عظمت کا اقرار کرنا ہے جسے نمازی اب شروع کرنے والا ہے۔
٭اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عابد اور معبود کے درمیان حجابات نماز میں اٹھ جاتے ہیں۔
٭سارے بدن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔
٭حضرت ابن عمر ؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کے حضور قیام کی تکمیل رفع الیدین سے ہوتی ہے۔
٭عقبہ بن عامر ؓ کا فرمان ہے کہ ہر رفع الیدین سے دس نیکیاں ملتی ہیں، یعنی ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔
(فتح الباري: 283/2)
٭ رفع الیدین سے ماسوی اللہ کی نفی اوراللہ أکبر سے اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرنا ہے۔
٭بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ رفع الیدین کرنا گویا دنیا کو پس پشت پھینک دینے کی طرف اشارہ ہے۔
ایسی محبوب سنت کے متعلق نسخ کا دعویٰ کرنا یا اسے منافئ سکون قرار دینا یا اس پر سنت غیر مؤکدہ کا ٹھپا لگانا یا اس کے متعلق عدم دوام کی پھبتی کسنا، یا اس کے ترک کو ثابت کرنے کے لیے زور قلم صرف کرنا یا اس کے متعلق بے بنیاد مناظروں کی داستانیں وضع کرنا فقہائے عراق کے دست ہنر شناس ہی کا کرشمہ ہوسکتا ہے۔
والله المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 736   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:738  
738. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا، آپ نے نماز کے آغاز میں اللہ أکبر کہا۔ تکبیر کہتے وقت آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے برابر کر لیا۔ جب آپ نے رکوع کے لیے اللہ أکبر کہا تو بھی ایسا کیا۔۔ جب سمع الله لمن حمده کہا تب بھی اسی طرح کیا اور ربنا ولك الحمد بھی کہا۔ آپ یہ عمل سجدہ کرتے وقت نہیں کرتے تھے اور نہ اس وقت جب سجدے سے سر اٹھاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:738]
حدیث حاشیہ:
(1)
رفع ا لیدین کرتے وقت نمازی اپنے ہاتھوں کو کہاں تک اٹھائے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو روایت پیش کی ہے اس میں کندھوں کے برابر اٹھانے کا ذکر ہے۔
جمہور ائمہ اسی بات کے قائل ہیں کہ نمازی اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔
صحیح مسلم میں حضرت مالک بن حویرث ؓ سے مروی حدیث کے مطابق کانوں کی لوتک اٹھانے کا ذکر ہے۔
سنن ابو داود میں وائل بن حجر ؓ کی روایت میں کانوں تک ہاتھ اٹھانا بیان ہوا ہے۔
ابو ثور نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اس طرح اٹھائے جائیں کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں کندھوں کے مقابل ہوجائیں، انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر اور باقی انگلیاں کانوں کے اوپر والے حصے کے سامنے ہوجائیں۔
اس طرح منكبين، اذنين اور فروع الاذنين والی تمام روایتیں اکٹھی ہوجاتی ہیں اور مذہب کا اختلاف بھی ختم ہوجاتا ہے۔
(فتح الباري: 287/2)
ان روایات کی بنا پر رفع الیدین کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک یا کانوں تک اٹھانا دونوں طرح جائز ہے مگر زیادہ تر احادیث میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔
یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کو پکڑنا یا انھیں چھونا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
ایسا کرنا خود ساختہ عمل ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(2)
واضح رہے کہ احناف کے نزدیک نمازی مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اور عورت اپنے کندھوں تک اٹھائے،اس لیے کہ یہ زیادہ پردے کا باعث ہے۔
اس تفریق کے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، لہٰذا رفع الیدین کی حد بندی کے متعلق مرد اور عورتیں برابر ہیں۔
(فتح الباري: 287/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 738   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:739  
739. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تواللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ جب رکوع کرتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور جب سمع الله لمن حمده کہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعت ادا کر کے کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ مذکورہ بیان کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس روایت کو حماد بن سلمہ، حضرت ایوب سے وہ حضرت نافع سے، وہ ابن عمر سے اور ابن عمر نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابن طہمان نے اس روایت کو مختصر طور پر ایوب اور موسیٰ بن عقبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:739]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوسری رکعت سے فراغت کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہواہے۔
عام طور پر حضرت ابن عمر ؓ سے رفع الیدین کے متعلق ان کے دو شاگرد بیان کرتے ہیں:
ایک ان کے بیٹے حضرت سالم اور دوسرے ان کے تلمیذِ خاص حضرت نافع۔
حضرت سالم کی روایت میں دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کی نفی اور حضرت نافع کی روایت میں دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے۔
ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کہ تطبیق دی جائے بلکہ نافع کی رویت میں ایک اضافہ، یعنی دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا جس کی نفی حضرت سالم کی روایت میں نہیں بلکہ حضرت سالم بھی بعض اوقات اس کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ امام بخاری ؒ نے جزء رفع الیدین میں اسے بیان کیا ہے۔
(جزءرفع الیدین، حدیث: 78)
نیز ابن حبان نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔
(صحیح ابن حبان(الإحسان)
ذکرمایستحب للمصلي رفع الیدین……3/178،177، حدیث: 1874)

حضرت ابن عمر ؓ سے ان کے شاگرد حضرت نافع کے علاوہ حضرت محارب بن دثار بھی اس مقام پر رفع الیدین کو بیان کرتے ہیں۔
(جزءرفع الیدین، حدیث: 26)
حضرت علی ؓ کی روایت میں بھی اس رفع الیدین کا ذکر ہے۔
(صحیح ابن خزیمة، باب رفع الیدین عندارادة……1/295، 294، حدیث: 584)
اس کے علاوہ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ بھی بیان کرتے ہیں۔
(جزءرفع الیدین حدیث: 3)
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر، حضرت علی اور حضرت ابو حمیدی ساعدی رضی اللہ عنہم نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت جو رفع الیدین بیان کیا ہے وہ صحیح اور ثابت ہے، کیونکہ ان حضرات نے صرف ایک نماز کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جس میں انھوں نے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اختلاف کیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک راوی نے نماز کے متعلق ایک اضافی بات سے ہمیں آگاہ کیا ہے جس پر دوسرے حضرات مطلع نہیں ہوسکے۔
اس طرح کا اضافہ اہل علم کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔
(جزءرفع الیدین، ص: 178)
(2)
امام ابن خزیمہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر رفع الیدین کرنا سنت ہے اگرچہ امام شافعی کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا، تاہم اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اور امام شافعی نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ سنت پر عمل کرو اور اس کےمقابلے میں میری بات کو چھوڑ دو۔
اسی طرح ابن بطال اور علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ایک ایسا اضافہ ہے جس کا قبول کرنا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 288/2) (3)
ائمۂ اربعہ کے متعلق خدمت اسلام کا اعتراف کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا ہے کہ حق صرف ان چار اماموں میں منحصر نہیں، کیونکہ مذکورہ سنت (دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین)
کے متعلق ان چار ائمہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل یا فاعل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ امام بخاری ؒ پر اپنی رحمتیں برسائے کہ انھوں نے اس کے متعلق عنوان قائم کرکے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔
والله أعلم۔
اگرچہ امام بخاری ؒ کے اسلوب کے مطابق ہم قیل وقال میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن ایک جاہلانہ بات کا جواب دینا ہم ضروری خیال کرتے ہیں جس کا تعلق اہل علم سے نہیں بلکہ عامۃ الناس سے ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بعض لوگ نماز پڑھتے وقت اپنی بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے، اس لیے رفع الیدین کا حکم دیا گیا جسے بعد میں منسوخ کردیا گیا، حالانکہ نماز کے دوران بغلوں میں بت چھپانے کا دعویٰ خود ساختہ اور بلا دلیل ہے جس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ کسی ضعیف اور من گھڑت روایت سے بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا، تاہم اس کے متعلق ہمارے ملاحظات حسب ذیل ہیں:
٭ بت پرستی مکہ مکرمہ میں تھی لیکن نماز باجماعت نہیں تھی، مدینہ منورہ میں جماعت فرض ہوئی لیکن مدینہ منورہ میں بت پرستی نہیں تھی، مدینہ میں جو لوگ بغلوں میں بت لے کر آئے تھے وہ کون تھے؟٭اگر بتوں کو گرانا مقصود تھا تو تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین اس مقصد کے لیے کافی تھا،پھر رکوع اور سجدے کی حالت میں بھی بت گر سکتے تھے، اس کے لیے الگ رفع الیدین جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
پھر اگر بت گرانا مقصود تھا تو پہلی رکعت ہی میں ان کا صفایا ہوجاتا تھا، ہر رکعت میں یہ عمل کیوں دہرایا جاتا رہا؟٭اگر منافقین یہ کام کرتے تھے تو ان کی عقل کا ماتم کرنا چاہیے، کیونکہ وہ انھیں اپنی جیبوں میں لانے کے بجائے بغلوں میں دبا کر لاتے تھے۔
٭اس قسم کی جاہلانہ بات کو رواج دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غیب جانتے تھے۔
اگر آپ واقعی عالم الغیب تھے تو رفع الیدین کے بغیر ہی ان کی حرکت کا نوٹس لیا جاسکتا تھا۔
٭رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کے حاکم اور فرمانرواتھے، کیا وہ اس قدر کمزور تھےکہ ایسے لوگوں کے خلاف علانیہ کارروائی کرنے کے بجائے انھیں نماز میں رفع الیدین پر لگانا پڑا؟٭ ہمارا اس کہانی کو رواج دینے والوں سے سوال ہے کہ اگر رفع الیدین کرتے وقت منافقین کی بغلوں سے بت گرتے تھے تو انھیں کیا سزا دی گئی؟دراصل یہ افسانہ خود تراشیدہ ہے۔
اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں دو تعلیقات کا بھی ذکر کیا ہے۔
اگرچہ ان میں دورکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت نافع حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اس روایت کو موقوف نقل کرتے ہیں جبکہ حضرت سالم اسے مرفوع بیان کرتے ہیں۔
حماد بن سلمہ کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے خود جزء رفع الیدین میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(جزءرفع الیدین، حدیث: 54،53)
جبکہ ابراہیم بن طہمان کی تعلیق کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولا ذکر کیا ہے۔
(فتح الباري: 289/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 739