موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الرَّضَاعِ
کتاب: رضاعت کے بیان میں
2. بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّضَاعَةِ بَعْدَ الْكِبَرِ
بڑے پن میں رضاعت کا بیان
حدیث نمبر: 1262
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَضَاعَةِ الْكَبِيرِ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَكَانَ تَبَنَّى سَالِمًا الَّذِي يُقَالُ لَهُ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ، وَأَنْكَحَ أَبُو حُذَيْفَةَ، سَالِمًا، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ ابْنُهُ، أَنْكَحَهُ بِنْتَ أَخِيهِ فَاطِمَةَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ، وَهِيَ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامَى قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5، رُدَّ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ أُولَئِكَ إِلَى أَبِيهِ، فَإِنْ لَمْ يُعْلَمْ أَبُوهُ، رُدَّ إِلَى مَوْلَاهُ، فَجَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ وَهِيَ امْرَأَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ وَهِيَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَرَى سَالِمًا وَلَدًا، وَكَانَ يَدْخُلُ عَلَيَّ وَأَنَا فُضُلٌ، وَلَيْسَ لَنَا إِلَّا بَيْتٌ وَاحِدٌ، فَمَاذَا تَرَى فِي شَأْنِهِ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْضِعِيهِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ، فَيَحْرُمُ بِلَبَنِهَا" . وَكَانَتْ تَرَاهُ ابْنًا مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَأَخَذَتْ بِذَلِكَ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ فِيمَنْ كَانَتْ تُحِبُّ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا مِنَ الرِّجَالِ، فَكَانَتْ تَأْمُرُ أُخْتَهَا أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَبَنَاتِ أَخِيهَا، أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهَا مِنَ الرِّجَالِ، وَأَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، وَقُلْنَ: لَا وَاللَّهِ، مَا نَرَى الَّذِي أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْلَةَ بِنْتَ سُهَيْلٍ، إِلَّا رُخْصَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَضَاعَةِ سَالِمٍ وَحْدَهُ، لَا وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُ عَلَيْنَا بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ أَحَدٌ، فَعَلَى هَذَا كَانَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَضَاعَةِ الْكَبِيرِ
ابن شہاب سے سوال ہوا کہ بڑھ پن میں کوئی آدمی عورت کا دودھ پیئے تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ سیدنا حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور جنگِ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ انہوں نے بیٹا بنایا تھا سالم کو، تو سالم مولیٰ کہتے تھے سیدنا ابی خذیفہ رضی اللہ عنہ کو، جیسے زید کو بیٹا کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ اور سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتجی فاطمہ بنت ولید سے کر دیا تھا جو پہلے ہجرت کرنے والوں میں سے تھی، اور تمام قریش کی ثیبہ عورتوں میں افضل تھی، جب اللہ جل جلالہُ نے اپنی کتاب میں اُتارا سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے حق میں: ”ان کو اپنے باپ کا بیٹا کہو، یہ اچھا ہے اللہ کے نزدیک۔“ اگر ان کے باپ کا نام معلوم نہ ہوتا، اپنے مالک کی طرف نسبت کئے جاتے، تو سیدہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی جورو جو بنی عامر بن لوی کی اولاد میں سے تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کو اپنا بچہ سمجھتے تھے، ہم ننگے کھلے ہوتے تھے، وہ اندر چلا آتا تھا، اب کیا کرنا چاہیے؟ دوسرا گھر بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پانچ بار دودھ پلا دے تو وہ تیرا محرم ہوجائے گا۔“ پھر سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ایسا ہی کیا، اور سالم کو اپنا رضائی بیٹا سمجھنے لگی۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسی حدیث پر عمل کرتیں تھیں، اور جس مرد کو چاہتیں کہ اپنے پاس آیا جایا کرے تو اپنی بہن اُم کلثوم کو حکم کرتیں، اور اپنی بھتیجیوں کو کہ اس شخص کو اپنا دودھ پلا دیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بیبیاں اس کا انکار کرتی تھیں کہ بڑھ پن میں کوئی دودھ پی کر ان کا محرم بن جائے، اور ان کے پاس آیا جایا کرے، اور وہ یہ کہتی تھیں کہ یہ خاص رخصت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا کو۔ قسم اللہ کی! ایسی رضاعت کی وجہ سے ہمارا کوئی محرم نہیں ہو سکتا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4000، 5088، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1453، 1453، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4213، 4214، 4215، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2707، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3326، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5312، 5314، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2061، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2303، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1943، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12656، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24742، والحميدي فى «مسنده» برقم: 280، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10332، فواد عبدالباقي نمبر: 30 - كِتَابُ الرَّضَاعِ-ح: 12»