موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ
کتاب: نذروں کے بیان میں
2. بَابُ مَا جَاءَ فِي مَنْ نَذَرَ مَشْيًا إِلَى بَيْتِ اللّٰهِ
جو شخص نذر کرے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک اس کا بیان
وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ الرَّجُلِ، يَقُولُ لِلرَّجُلِ: أَنَا أَحْمِلُكَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، فَقَالَ مَالِك: إِنْ نَوَى أَنْ يَحْمِلَهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، يُرِيدُ بِذَلِكَ الْمَشَقَّةَ، وَتَعَبَ نَفْسِهِ فَلَيْسَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَلْيَمْشِ عَلَى رِجْلَيْهِ، وَلْيُهْدِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَوَى شَيْئًا، فَلْيَحْجُجْ وَلْيَرْكَبْ، وَلْيَحْجُجْ بِذَلِكَ الرَّجُلِ مَعَهُ وَذَلِكَ، أَنَّهُ قَالَ: أَنَا أَحْمِلُكَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ فَإِنْ أَبَى أَنْ يَحُجَّ مَعَهُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ
۔ سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں تجھے بیت اللہ تک اٹھا لے چلوں گا، تو کیا حکم ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: اگر اس کی نیت یہ تھی کہ میں اپنی گردن پر اٹھا لے چلوں گا اور اس کہنے سے صرف اپنے تئیں تکلیف میں ڈالنا منظور تھا، تو اس صورت میں اس پر لازم نہ ہو گا، بلکہ پیدل چلے اور ایک ہدی دے، اور جو اس نے کچھ نیت نہ کی ہو تو حج کرے سوار ہو کر اور اپنے ساتھ حج کو اس شخص کو بھی لے جائے، کیونکہ اس نے کہا کہ میں تجھ کو بیت اللہ تک اٹھائے چلوں گا، البتہ اگر وہ شخص انکار کرے اس کے ساتھ جانے سے، تو اس شخص پر کچھ لازم نہیں، کیونکہ یہ اپنا کام پورا کر چکا۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 5»