موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الزَّكَاةِ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
27. بَابُ مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ زَكَاةُ الْفِطْرِ
جن لوگوں پر صدقہ فطر واجب ہے اُن کا بیان
قَالَ مَالِك فِي الْعَبْدِ الْآبِقِ: إِنَّ سَيِّدَهُ إِنْ عَلِمَ مَكَانَهُ أَوْ لَمْ يَعْلَمْ وَكَانَتْ غَيْبَتُهُ قَرِيبَةً فَهُوَ يَرْجُو حَيَاتَهُ وَرَجْعَتَهُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ يُزَكِّيَ عَنْهُ وَإِنْ كَانَ إِبَاقُهُ قَدْ طَالَ وَيَئِسَ مِنْهُ فَلَا أَرَى أَنْ يُزَكِّيَ عَنْهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی کا غلام مفرور ہو تو اگر مالک اس کے پتے اور نشان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، لیکن بھاگنا اس کا قریب ہو یعنی تھوڑا عرصہ اس کے بھاگے پر گزرا ہو اور اس کی زندگی اور مراجعت کی توقع ہو تو میرے نزدیک اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہیے، اور جو اس کے بھاگے کو بہت زمانہ گزر چکا ہو اور اس کے آنے کی پھر توقع نہ ہو تو صدقۂ فطر اس کی طرف سے نہ دے۔
تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 578، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 51»